منگل ‘ 9 ذی الحج 1439 ھ ‘ 21 اگست 2018ء
عمران کے ساتھ مل کر لڑکیوں کی تعلیم پر کام کرنا چاہتی ہوں: ملالہ
یہ تو اچھی بات ہے۔ وزیراعظم اس طرف ضرور توجہ دیں۔ ملالہ یورپ میں نہیں‘ پوری دنیا میں پاکستان کا روشن چہرہ ہے۔ حصول علم کی لگن میں جان پر کھیلنے والی اس لڑکی سے اگر پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ مل سکتا ہے تو اسے ضرور موقع دیں۔ وزیراعظم بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کو پاکستان کا روشن چہرہ دکھانا کتنا ضروری ہے۔ ملالہ کو دنیا بھر میں تعلیم کے حوالے سے ایک بہادر لڑکی کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے حکومتی سطح پر آگے آتی ہیں تو دنیا بھر سے پاکستان کو خواتین کی تعلیم و تربیت کیلئے بے تحاشہ مدد مل سکتی ہے۔ ملالہ کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جا رہی جس کی ضرورت ہے۔ لوگ جب موت سے ٹکرانے والی لڑکی کو تعلیم کے میدان میں کام کرتا دیکھیں گے تو انکی سوچ بدل سکتی ہے۔ اس طرح ہم لڑکیوں کو کیا لکھانا پڑھاناان کو کرنی تو آخرہانڈی روٹی ہی ہوتی ہے“ والی سوچ کو شکست دے سکتے ہیں اور ملک کی لاکھوں بچیوں کو روشن علمی مستقبل کی راہ دکھا سکتے ہیں۔
٭........٭........٭
مشیر وزیراعلیٰ سندھ کی بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں مزار قائد آمد
اس بارے میں وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر محمد بخش مہر کا جوابی بیان لگتا ہے الف نون ڈرامہ سیریز کا کوئی مزاحیہ جملہ ہے۔ موصوف فرماتے ہیں انکی نمبر پلیٹ گر گئی تھی جو ڈرائیور نے اُٹھا کر گاڑی میں رکھی اور بعد میں لگا دی تھی۔ کروڑوں روپے مالیت والی اس قیمتی گاڑی کی نمبر پلیٹ اتنی کمزور کیسی نکلی اور اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ آگے اور پیچھے والی دونوں نمبر پلیٹیں بیک وقت کیسے گریں کہ یہ یک نہ شد دو شد والا معاملہ بن گیا۔ اب کوئی کراچی پولیس سے بھی جا کر پوچھے کہ بنا نمبر پلیٹ کے گاڑی کو روکا کیوں نہیں چیک کیوں نہیں کیا۔
کیا محمد بخش مہر کو ”سوہنا منڈا“ سمجھ کر چھوڑا گیا یا مشیر بننے کی وجہ سے رعایت دی گئی۔ ویسے تو ہم بھی مہر صاحب کی سپورٹس دوست پرسنالٹی کے معترف ہیں۔ اگر وہ کام بھی اچھے کریں تو انکی پسندیدگی میں اور اضافہ ہو گا۔ اگر خدانخواستہ یہ کوئی خودکش بمبار گاڑی ہوتی تو کیا ہوتا۔ کراچی پولیس لگتا ہے لگژری عالیشان گاڑیوں کو بڑی سرکار کی گاڑی سمجھ کر روکنے کی جرا¿ت نہیں کرتی۔ انہیں کم از کم یہ پالیسی تو اب بدلنی ہو گی۔ پولیس کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں سوشل میڈیا روکنے پر بدتمیزی یا تھپڑ مارنے والی بڑی سرکار کا چشم زدن میں پورے ملک میں پوسٹ مارٹم کر دے گا۔
٭........٭........٭
میاں صاحب کھانے کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے: عمران کے استفسار پر جواب
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خوش خوراکی کی داستانیں توعام ہیں۔ انکے ناشتے سے لیکر دوپہر اور رات کے کھانے تک کے بارے میں طرح طرح کے الف لیلوی افسانے لوگ مزے لےکر سناتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو جن میں نئے وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں انکے وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات پر خاصہ اعتراض رہا ہے۔بہرحال اب وزیراعظم عمران خان نے جو پہلے کام کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وزیر اعظم ہاﺅس کے کھانے کے بلوں کی فہرست طلب کی کہ خود دیکھ سکیں کہ یہاں خزانے سے کھابوں پر کتنا خرچ کیا گیا ۔ مگر انہیں اس وقت افسوس ہوا ہو گا جب پتہ چلا کہ میاں نواز شریف ان تمام کھابوں کا خرچہ قومی خزانے سے نہیں اپنے جیب سے ادا کرتے تھے۔ مگرپھر بھی تسلی کےلئے انہوں نے تمام چیک بھی منگوا کر دیکھے۔ اب اگر وزیراعظم لگے ہاتھوں خیبر پی کے ہاﺅس اسلام آباد کے چائے کے بلوں کی مد میں کروڑوں کے واجبات بھی چیک کر لیں تو معلوم ہو گا وہاں بھی بہت سے لوگ چائے پانی کی بہتی گنگا میں نہاتے رہے ہیں۔ اب اگروہ ہی وصول ہو جائے پیٹ پھاڑ کے نہ سہی ذرا پیار سے ہی۔
٭........٭........٭
تحریک انصاف کی 20 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا
نئے پاکستان کی اس کابینہ میں زیادہ تر چہرے وہی پرانے ہیں۔ کوئی مشرف دور سے تعلق رکھتا ہے کوئی پیپلز پارٹی دور کا ہے۔ نئے چہرے بہت کم ہیں۔ خود تحریک انصاف کے وزیر تو دو ہی نظر آتے ہیں ایک محترمہ شریں مزاری اور دوسرے اسد عمر باقی سب مانگے تانگے والے ہیں۔ وزیر دفاع کےلئے پرویز خٹک کا انتخاب لاجواب ہے خدا جانے خان صاحب نے کس غیبی اشارے پر یہ کیا۔ وہ تیز ہوا میں اپنا دفاع ہی کر لیں تو بڑی بات ہے توپوں کی گھن گرج طیاروں کے ساﺅنڈ بیرئیر توڑنے والے دھماکے وہ کیسے برداشت کرینگے۔ انہیں اگر بنانا ہی تھا تو وزیر صحت بنا دیتے تاکہ جب وہ عالمی کانفرنسوں میں شرکت کےلئے جاتے تو دنیا کو ہماری پتلی صحت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا۔ بہرحال اب حکومتی رمز ہم کیا جانیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ شیخ رشید کو ایک بار پھر وزیر ریلوے بنا دیا گیا ہے۔ خدا کرے وہ خواجہ سعد رفیق کی طرح ریل کی چہل پہل میں مزید تیزی لائیں۔ اسکے ساتھ ہی صحافیوں کےلئے علیحدہ کوٹہ اور انکے بچوں کیلئے پہلے کی طرح ٹکٹ میں آدھی رعایت بحال کردیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اگر وہ ریل کو بروقت ٹائم ٹیبل کے مطابق چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ریل کے مسافروں کی سہولتوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ادارہ بھارتی ریلوے کی طرح ایک بڑا منافع بخش ادارہ نہ بن سکے۔
٭........٭........٭
جگنو محسن نے بھی پی ٹی آئی کے نامزد وزیراعلیٰ کو ووٹ ڈالا
جس طرح پیپلز پارٹی نے اپنے قائدین کےخلاف گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر متحدہ اپوزیشن کا کام تمام کر دیا۔ پارٹی کے ممبران اسمبلی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں اپوزیشن امیدوار کی حمایت نہیں کی ۔ اسی طرح اب نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا نے بھی اپنے شوہر نامدار کیخلاف پھندا کستا دیکھ کر پنجاب اسمبلی میں اپنی مربی جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) کی بجائے پی ٹی آئی کے نامزد وزیر اعلیٰ کو ووٹ دیا۔ اب معلوم نہیں اسے موقعہ شناسی کہیں گے یا سیاسی داﺅ پیچ۔ اب وہ لوگ کہاں رہ گئے جو کہتے تھے کہ وہ اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔ یہاں تو چڑیا نے شیر کی کھال کھینچنے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سچ کہیں تو جگنو محسن نے پیپلز پارٹی کی پالیسی اپنا کر اس کی سیاست سے اتفاق کر لیا ہے۔ آزاد تو وہ ہیں ہی اب چاہے پیپلز پارٹی کا رخ کر لیں یا پی ٹی آئی کے سنہری پنجرے میں رین بسیرا کر لیں۔ ان سے کون پوچھے گا۔ مگر چڑیا نے شاید ستاروں کی چال نہیں دیکھی۔ اس کے لئے عقاب کی نظر چاہئے اب شاید ہی کوئی منتر جادو یا ٹونا ٹوٹکا نجم سیٹھی کی چیئرمینی بچا سکے۔ خود پی سی بی والے اس 35 پنکچر والے پیر تسمہ پا سے جان چھڑانے کی زبردست اپیلیں کرتے پھر رہے ہیں....
٭........٭........٭