صدر کے انتخاب میں بھی پیپلزپارٹی کی تنہا پرواز
پیپلزپارٹی نے صدارتی انتخاب کیلئے اپنا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے پارٹی قیادت کی جانب سے بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے اور سید خورشید شاہ کو مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں سے رابطہ کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ اسی طرح سید خورشید شاہ، شیری رحمان اور قمر الزمان کائرہ سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرینگے۔ صدارتی انتخاب کیلئے حکمران پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پہلے ہی ڈاکٹر عارف علوی کو بطور امیدوار نامزد کیا جا چکا ہے۔ صدر ممنون حسین کی بطور صدر آئینی معیاد آئندہ ماہ 8 ستمبر کو ختم ہو جائےگی جبکہ صدر کے انتخاب کیلئے 4 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے جس میں سینٹ‘ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں حلقہ انتخاب ہوں گی۔
صدر مملکت کیلئے بے شک چودھری اعتزازاحسن موزوں امیدوار ہیں جو سینئر پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے معروف قانون دان بھی ہیں اور بطور سیاستدان بھی انکی اچھی ساکھ ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر کئے گئے فیصلوںسے انحراف کر کے اور وزیراعظم کیلئے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شہبازشریف‘ جو درحقیقت متحدہ اپوزیشن کے امیدوار تھے‘ کی مخالفت کر کے اپوزیشن کے اتحاد میں خود ہی دراڑیں پیدا کر دی ہیں جبکہ صدارتی امیدوار کیلئے پیپلزپارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) اور دوسری اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔ اسکے اب غالب امکان یہی ہے کہ پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ امیدوار دوسری اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا ہونا انتہائی مشکل ہو گا۔ اگر انتخابی تاریخ کے بعد انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے نئے انتخابات کے تقاضے کیلئے قائم ہونیوالا اپوزیشن اتحاد کا دامن تھامے رکھا گیا ہوتا اور اسکے پلیٹ فارم پر ہونیوالے فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ وزیراعظم کے امیدوار پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہوتا جیسا کہ مسلم لیگ ن نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کیلئے اپوزیشن اتحاد کے فیصلوں کی ہی پاسداری کی تو یقیناً صدر کے انتخاب میں اپوزیشن اتحاد حکمران پی ٹی آئی کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوجاتا کیونکہ صدر کے حلقہ انتخاب میں سینٹ اور سندھ اسمبلی بھی شامل ہیں، جہاں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی موثر جوڑ توڑ ہو سکتی تھی مگر اب صدر کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی سے بدلہ چکانے کی کوشش کرے گی جس کا عندیہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ کے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ پیپلزپارٹی تو اس وقت حکومت کو سپورٹ کر رہی ہے اس لئے اپوزیشن کی جانب سے اسکے امیدوار کی کیسے حمایت کی جا سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری اگر اس وقت بھی فہم و فراست سے کام لیں اور اپوزیشن قائدین سے خود رابطہ کر کے ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں تو اپوزیشن کے کسی متفقہ امیدوار پر اتفاق ہو سکتا ہے، بصورت دیگر صدر مملکت کےلئے بھی حکمران پی ٹی آئی کی کامیابی نوشتہ دیوار نظر آرہی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی کاوفاق کی علامت اور چاروں صوبوں کی زنجیر والا سیاسی تشخص استوار ہو جائےگا۔ یقیناً یہ ،صورتحال اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی قائم نہ ہو پانے کے باعث ہی پیدا ہوئی ہے۔