عمران خان کمٹڈ رہے تو قوم یقیناً ترقی و خوشحالی کی منزل پا لے گی
وزیراعظم کاقوم سے خطاب! کرپٹ لوگوں کے کڑے احتساب کا عزم‘ سادگی اپنانے اور جہاد سمجھ کر ٹیکس ادائیگی کی اپیل
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ شب اپنے پہلے خطاب کے دوران قوم سے سادگی اپنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم ہاﺅس میں محض دو ملازموںکے ساتھ دو گاڑیاں اپنے لیے رکھ کر بلٹ پروف سمیت دیگر تمام اضافی گاڑیاں نیلام کر ینگے، حاصل شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائیگی۔ ہمارا کوئی گورنر بھی گورنر ہاﺅس میں نہیں رہے گا، بیرون ممالک سے قرض نہیں مانگوں گا۔ پولیس، تعلیمی نظام، ایس ای سی پی اور ایف بی آر کو ٹھیک کروں گا تاکہ لوگ پراعتماد ہوکر ٹیکس دیں، وزارت داخلہ میرے پاس ہوگی، ایف آئی اے ماتحت ہوگی، اب ملک بچے گا یا کرپٹ لوگ بچیں گے، انکا مقابلہ کرنے کےلئے تیا ر ہوجائیں، ہاتھ پڑا تو کرپٹ مافیا شور مچائے گا۔ کرپشن کی نشاندہی کرنیوالے کو 20 سے 25فیصد تک دینگے، عوام جہاد سمجھ کر ٹیکس ادا کریں۔ بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کو مدد فراہم کرینگے، ایسا نظام لائینگے کہ ایک سال میں سول مقدمات کا فیصلہ ہو، نیب کو ہرممکن مدد فراہم کرینگے، پاکستانی عوام کےلئے ساڑھے پانچ لاکھ روپے کے ہیلتھ کارڈز کا اجراءکرینگے ،بچوں سے زیادتی کیخلاف سخت ایکشن لیں گے،سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کے معیار کو ٹھیک کرینگے۔پانی بہت بڑامسئلہ ہے، پانی کے حوالے سے نئی وزارت بنا رہے ہیں، بھاشا ڈیم بنانا ناگزیر ہے،پیسہ اکٹھا کرینگے،بلدیاتی نظام کو بہتر کرنا ہے‘ اس میں اصلاحات لائیں گے ،ناظم کا الیکشن براہ راست کرائینگے۔ نوجوانوں کو نوکریاں، بلاسود قرضے دینگے، پانچ سالوں میں 50لاکھ سستے گھر بنائینگے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے،اس سے نوکریاں ملیں گی اور انڈسٹریز کھڑی ہونگی،پیشہ ورانہ تربیت دینگے،پورے ملک میں درخت لگائیں گے ،ملک کو آلودگی سے پاک کرینگے،فاٹا کو میں جلدی بلدیاتی الیکشن کرائینگے اور ترقی دینگے۔انہوں نے کہا کہ قوم کو سادہ زندگی گزار کر دکھاﺅں گا، جنوبی پنجا ب کو الگ صوبہ بننا چاہئیے، دہشت گردی کا خاتمہ کرینگے،امن کے بغیر خوشحالی نہیں آسکتی۔ ہمسایہ ممالک سے بہترین تعلقات قائم کرینگے۔ انہوں نے وزیر اعظم ہاﺅس کی جگہ ریسرچ یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانا میرا مقصد ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب روایات سے ہٹ کر تھا۔ انہوں نے روایتی طور پر تقریر پڑھنے کے بجائے قوم کے ساتھ فی البدیہہ مکالمہ کیا اور چند ایک کے سوا قوم و ملک کو درپیش ہر ایشو پر بات کی۔ ان میں بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ باربار ملک و قوم کو درپیش مشکلات‘ مسائل اور چیلنجز کا اعادہ کرتے اور ان کا حل بھی تجویز کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے موقع پر اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اب جبکہ ماضی کے مقابلے میں اپوزیشن کا رویہ نہایت تلخ بلکہ اشتعال انگیز ہے مگر حیران کن طور پر اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کی تقریر کا پوسٹ مارٹم کرنے یا شدید ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے سرسری مخالفانہ بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کہا گیا کہ عمران خان کارکردگی دکھائیں ضیاءالحق نہ بنیں۔ پی پی نے تقریر کو مشرف کا ایجنڈا قرار دیا۔ اے این پی نے وزیراعظم کی تقریر کو گپ شپ کہہ کر ردعمل کے اظہار کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ یہ ردعمل بھی مذکورہ پارٹیوں کی اعلیٰ لیڈر شپ کی طرف سے نہیں آیا۔ میڈیا میں خطاب پر مثبت اور منفی تبصرے ہورہے ہیں تاہم مجموعی تاثر کو امیدافزاءکہا جا سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں عمران خان کے خطاب کو تجارتی و مالیاتی حلقے انتہائی مثبت اور تعمیری قرار دے رہے ہیں۔ وزیراعظم کے خطاب پر کچھ حلقوں کی طرف سے اس حد تک امیدیں وابستہ کرلی گئی ہیں کہ عمران خان 10 فیصد بھی ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہوگئے تو حریف جماعتیں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔
عمران خان نے جو وعدے اور دعوے دہرائے‘ قوم کو جو امید دلائی اس پر پورا اترنے کیلئے گو ٹارزنی صلاحیت درکار ہے‘ مگر عزم و ارادہ اور کمٹمنٹ ہو تو جو کچھ بھی کہا گیا ناممکنات میں ہرگز نہیں ہے۔ عمران خان کے بقول وہ جو کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں‘اسکی تکمیل بھی کرلیتے ہیں انہوں نے جو وعدے کئے وہ پورے کرتے ہیں تو یہ ملکی استحکام اور قوم کی خوشحالی اور نئی نسل کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہوگی۔ عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل سے ملک میں نرم انقلاب کی راہ ہموار ہوگی۔ عمران خان کو کام نہ کرنے دیا گیا یا وہ اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے میں کامیاب نہ ہوسکے تو سٹیٹس کو برقرار رہے گا۔ سٹیٹس کو برقرار رہنے کا مطلب مہنگائی‘ بے روزگاری اور اربوں کھربوں کی کرپشن کا جن یونہی دندناتا رہے گا۔ غریب پر علاج اور اسکی اولاد پر تعلیم کے دروازے بند رہیں گے‘ غیرمعیاری خوراک سے کروڑوں بچوں کی مناسب نشوونما نہ ہونے سے وہ کارآمد شہری بننے کے بجائے قوم پر بوجھ بنتے رہیں گے۔ رشوت اور چور بازاری جاری رہے گی اور آلودہ پانی سے بیماریوں میں مبتلا ہو کر بے وسیلہ لوگ مرتے رہیں گے۔ سٹیٹس کو نہ ٹوٹا تو پھر خونیں انقلاب کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ممکنہ انقلاب سے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف بجا طور پر قوم کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے پینے اور فصلوں کیلئے پانی کی زور دیکر بات کی ۔ انہوں نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا۔ بھاشا اور مہمند سمیت ہر ڈیم کی اپنی اہمیت ہے‘ انکی بلاتاخیر تعمیر و تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رہنی چاہیے مگر اس حقیقت سے اغماز نہیں برتا جا سکتا کہ مجوزہ تمام ڈیم مل کر بھی کالاباغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کبھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ایجنڈے میں سرفہرست تھی۔ پھر یہ پارٹیاں بھی اتفاق رائے کے جواز کا اسیر ہوگئیں۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے کچھ لوگوں کی طرف سے بے جا مخالفت کی جاتی ہے۔ کچھ عناصر بھارت کے ایماءپر مخالفت برائے مخالفت کررہے ہیں۔ ایسی فضا میں ایک طاقتور اور جذبے والا حکمران ہی اس کاز کی تکمیل کر سکتا ہے۔ مشرف طاقتور حکمران تھے‘ وہ اپنے دور کے آخری سال کالاباغ ڈیم کی تکمیل پر بڑے کمٹڈ نظر آئے‘ بالآخر وہ بھی سیاسی مصلحت کا شکار ہو کر خاموش ہوگئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قوم کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی مگر وہ بھی ایک حد تک ہی جاسکے۔عمران خان نے زندگی میں ہر چیلنج کو قبول کرتے ہوئے بشمول وزارت عظمیٰ اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کی۔ کالاباغ ڈیم کو بھی وہ چیلنج سمجھیں اور تمام صوبوں میں اتفاق رائے کی کوئی سبیل نکالیں تو اسکی تعمیر ناممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم کی تقریر میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بغیر کسی معقول وجہ کے امید ظاہر کی گئی مگر خارجہ پالیسی پر خاطرخواہ اظہار نظر نہیں آیا۔ دنیا کی نظریں انکے خطاب پر تھیں۔ خارجہ پالیسی کے مختصراً خدوخال انہیں باقی ایشوز کی طرح ضرور بیان کردینے چاہئیں تھے۔
وزیراعظم کے قوم سے پہلے خطاب میں عموماً سیاسی مفاہمت کی بات کی جاتی ہے اور اپوزیشن کو قومی ترقی و خوشحالی اور ملک کو بحرانوں و مشکلات سے نکالنے کیلئے حکومت کا ساتھ دینے کی دعوت دی جاتی ہے مگر عمران خان نے نہ صرف ایسی کوئی بات نہیں کی بلکہ وہ جن عناصر کیخلاف اقدامات کرنے کی قوم کو یقین دلا رہے تھے‘ انکے عمومی اشارے اپوزیشن کی طرف تھے۔ کرپشن جن حدود کو چھو رہی ہے‘ ایسے میں کڑا اور بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہے۔ ملکی و قومی وسائل کو لوٹنے والا کوئی شخص رورعایت اور رحم کا مستحق نہیں ہے مگر محض کہنے سے کوئی شخص کرپٹ نہیں ہو سکتا‘ ثبوتوں اور ٹرائل کے بعد ملزم سے مجرم بننے ہی سے کسی کو کرپٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کیلئے اداروں کو بااختیار اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کی اعلیٰ قیادت پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں‘ اسی طرح ہر حکومتی جماعت کی لیڈرشپ بھی کرپشن کے الزامات سے مبرا نہیں۔ وزیراعظم کو صاف ستھرے کردار کی حامل اپوزیشن جماعتوں اور رہنماﺅں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے جس سے جمہوریت کے استحکام میں مدد ملے گی۔