کیا پاکستان مسلم لیگ میں نواز شریف کے علاوہ کوئی آدمی نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خان نواز شریف کو نظر آتے ہیں مگر نظروں میں ٹھہرتے نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار تو ہیں۔ جب نواز لیگ کے بہت بڑے نمائندے کے طور پر مولانا فضل الرحمن نے کہہ دیا ہے کہ میں نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات اسحاق ڈار کو پیش کر دیے ہیں تو اسحاق ڈار ہی نائن زیرو پر چلے جاتے۔ مذاکرات کرتے تو یہ کبھی بھی مذاق رات نہ بنتے۔ مولانا فضل الرحمن عام لوگوں کے لیے جو حیثیت رکھتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں ایسے ہی تھے۔ انہیں قائد حزب اختلاف بنایا گیا اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کی حکومت بھی عطا کی گئی۔ ”صدر“ زرداری نے انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جو لوگوں کے لئے پریشان کن اور مضحکہ خیز تھا۔ پھر اپنے سیاسی بھائی ”صدر“ زرداری کی بات کو نواز شریف نے آگے بڑھاتے ہوئے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ میرا خیال ہے کہ انہیں کشمیر کمیٹی کا مستقل چیئرمین بنایا جائے تاکہ بھارت آسودگی محسوس کر کے کہ کشمیر کے لیے پاکستانی حکمرانوں کی پالیسی ایک جیسی یعنی ”بھارت دوستی“ کی مثال بن گئی ہے۔ مولانا نے کچھ عرصے پہلے عمران خان کے لوگوں کو قومی اسمبلی سے نکالنے کی مزاحیہ کوشش نواز شریف کو خوش کرنے کے لیے کی۔ اب ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی سے نکلنے نہ دینے کے لیے اسی طرح ”مخلصانہ“ کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح نائن زیرو میں جانے کی ان کی پرانی خواہش بھی پوری ہو گئی۔ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ سنا ہے یہ پھول لندن سے ہدایت کے مطابق مولانا پر پھینکے گئے تھے۔ یہی پھول نائن زیرو میں آنے والے ”صدر“ زرداری اور نواز شریف پر بھی پھینکے گئے تھے۔ کچھ پھول رحمان ملک اور اسحاق ڈار کے کپڑوں میں کئی دن تک پھنسے رہے؟
حضرت مولانا کو چاہئے کہ وہ مسلم لیگ نواز جائن کر لیں مگر جے یو آئی کی جانثار اور باوقار بہت اہل اور اہل دل شخصیت سابق ایم این اے حافظ حسین احمد کبھی مسلم لیگ ن میں شامل نہیں ہوں گے۔ شاید انہوں نے کبھی کہا تھا کہ کئی قسم کی مسلم لیگوں میں سے کوئی بھی مسلم لیگ نہیں ہے۔ انہیں نواز لیگ چٹھہ لیگ اور ”چھٹی لیگ“ وغیرہ وغیرہ کہو۔ جے یو آئی میں ایک آدمی تھا جس کی اسمبلی میں اپنی موجودگی سے ایک جرات اور صداقت اور کشادگی کا پتہ چلتا تھا۔ ان کے جملوں سے اسمبلی کشت زعفران بنی رہتی تھی۔ وہ اب بھی حضرت مولانا کے ساتھ مخلص ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے ہر پیشکش ٹھکرا دی ہے۔ مگر ہمارے ہاں پارٹی لیڈر آمرانہ جمہوریت کے چیمپئن ہیں۔ یہ پارٹیاں ان کی جاگیر ہیں۔ مسلم لیگ سے ”سیاسی فرقہ واریت ختم کی جائے۔ قائداعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کہاں گئی۔ کوئی ان سے پوچھے کہ قائداعظم کا پاکستان کہاں گیا۔ بھارت میں سیاسی پارٹی کانگریس کا جو حال ہوا وہی پاکستان میں مسلم لیگ کا ہوا۔ آج نواز شریف بھی کراچی گئے ہیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشاہداللہ خان سے بھی ہوئی ہو گی۔ وہاں انہوں نے دوٹوک بات کی کہ کراچی آپریشن مجرموں اور کراچی دشمنوں یعنی پاکستان دشمنوں کے خلاف ہے۔ کوئی جماعت پریشان نہ ہو مگر یہ بھی تو نواز شریف بتائیں کہ جو جماعت اور جماعتیں پریشان ہیں۔ وہ کیا ہیں۔ انہیں راہ راست پر لانے یا رام کرنے کے لیے کیا صرف مولانا صاحب کافی ہیں؟ تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ بڑی مشکل سے حل ہوا ہے۔ اب ایم کیو ایم کا معاملہ کتنی آسانی سے حل ہو گا۔ ایک من چلے نے ازراہ تفنن یہ جملہ کہا۔ اس نے کہا کہ یہ بامعنی ہے اور نہ معنی خیز ہے؟ ”اب بھی اگر کراچی آپریشن کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا گیا تو پھر پوسٹ مارٹم کرنا ہو گا؟
نواز شریف نے کراچی میں بہت جرات مندانہ باتیں کیں۔ ان باتوں سے خود ان کو بہت فائدہ ہو گا۔ یہ باتیں چودھری نثار بھی کر چکے ہیں۔ وہ وزیر داخلہ ہیں۔ انہیں کراچی میں ان کے ساتھ ہونا چاہئے تھا انہیں دیکھ کر ایم کیو ایم کو کچھ ہونے لگتا ہے؟ کچھ نہ کچھ تو ہونا بھی چاہئے۔
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کراچی میں لیکچر دے رہے تھے۔ اسی دن کراچی یونیورسٹی میں ماڈل ایان علی نے بھی لیکچر دیا۔ انہوں نے کیا لیکچر دیا ہو گا۔ میڈیا نے نواز شریف سے کم توجہ ایان علی کو نہ دی؟ سنا ہے ایان علی سے مل کر پروفیسر بھی خوش ہوئے۔ لڑکے تو ایان کے ساتھ سیلفیاں (تصویریں) بناتے رہے۔ یہ چیز تصویریں بنوانے سے مختلف ہوتی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اب ماڈل ایان علی ایک مفکر اور مدبر کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ فوراً پیپلز پارٹی جائن کریں اور شیری رحمان کی جگہ سنبھالیں۔ بلاول بھی ایان سے مل کر خوش ہو گا۔ اور پیپلز پارٹی کے نئے زمانے کی کوششوں کے لئے ضروری ہے کہ ایان علی کو اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنا لے۔ یہ بھی اس سے گذارش ہے کہ وہ ایان کو رحمن ملک سے بچائے کیونکہ ابھی ”صدر“ زرداری تو لندن میں ہیں۔
پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کی بہت مہذب پارلیمنٹرین ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا اپنے شوہر علمی ادبی ذوق رکھنے والے قادر صاحب اور برادرم منور انجم کے ساتھ میرے گھر تشریف لائیں۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی بہت تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی اردو اچھی ہے اور تلفظ بھی ٹھیک ہے۔ میں نے شہلا رضا سے کہا کہ بلاول کو مختلف یعنی اپنے انداز میں اردو بولنا چاہئے جس لہجے نے بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو پسندیدگی عطا کی۔ اس کا فائدہ ہو گا کہ ایان علی سے اس کی گفتگو بھی مزیدار ہو گی۔ ”صدر“ زرداری نے کچھ سوچ سمجھ کر شہلا رضا کو بلاول کا اتالیق بنایا کہ وہ اسے اردو سکھائے۔ ابھی بلاول کی ملاقات نواز شریف سے بھی ہو گی۔ البتہ اس طرح کراچی میں اچھائی آئے۔ ایک شعر مجھے برادرم مشہود شورش نے سنایا جو یقیناً شورش کاشمیری کا ہو گا۔ یہ کسی بھی ”معنویت“ کے بغیر عرض ہے۔
آپ ہی شیخ حرم کچھ تو وضاحت کیجئے
کر رہے ہیں ایک مولانا شناسائی کہاں