14اگست کو جب پاکستان میں سیاسی ہنگامے عروج پر تھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستانی جشن ِ آزادی کی تقریبات سے محروم کر دیئے گئے تھے پاکستانی قونصلیٹ ٹورنٹو میں ایک پر وقار اور معلوماتی تقریب منعقد کی گئی۔ میں اسے کیوں پر وقار کہہ رہی ہوں کیونکہ اس میں ہر طبقے کے لوگ بلا امتیاز یوں شریک تھے کہ کوئی خاص پروٹوکول کا سلسلہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ قونصل جنرل اصغر علی گولوہر کسی کو مسکراتے چہرے کے ساتھ خوش آمد یدکہہ رہے تھے اور معلوماتی اس لئے کہ میں نے اتنے کم وقت میں اتنے دلچسپ اور خوبصورت انداز میں پاکستان بننے کی تاریخ پہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔ ڈپٹی قونصل جنرل عمران علی نے وہاں موجود نہ صرف نوجوانوں کو دو قومی نظریے کی ضرورت اور اہمیت سے آگاہ کیا بلکہ ہماری نسل اور ہم سے پہلے والی نسل کے لوگوں کو بھی دوبارہ سے بھولا ہوا ماضی کا سبق یاد کروا دیا ۔ وہ لوگ جو پہلے تو صرف مطالعہ پاکستان پڑھتے رہتے اور پھر ایکدم سے ایک بھیڑ چال میں بہہ کر اپنے آپ کو فرسودہ اور کم پڑھا لکھا کہلانے سے بچنے کیلئے بالکل ہی دوسری سمت میں نکل جاتے ہیں اور پاکستان کے وجود پر ہی مشکوک ہونے لگتے ہیں ان کیلئے ایسی تعلیم ،تربیت کے ساتھ آج کے وقت کی ضرورت ہے ۔جس کو سو ڈیڑھ سو لوگ سن رہے تھے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس نے کم وقت میں کام کی زیادہ بات لوگوں تک پہنچائی وہ ایک عام سا سرکاری افسر ہے ۔سامعین کا ردِ عمل دیکھ کر سوچا آج اس محفل کے بعد کتنے لوگ معلومات اور اپنے آباء کے اوپر فخر کا جذبہ لے کر اٹھے ہیں ۔ اس سے زیادہ ایک مشن کا لیڈر اور نائب لیڈر کیا کر سکتے تھے ۔ تو اگلا سوال اور خواہش دل میں یہ ابھری کہ کیا پاکستان کے لیڈر جو اتنے بڑے بڑے مجمعے اکٹھے کرتے ہیں انہیں شعور اور آگاہی نہیں دے سکتے ؟
اے میرے کارکنو !! سے تقریر شروع کرنے کے بعد وہاں ہر 14 اگست کو کو کیا ہوتا ہے ؟ لیڈروں کی ایک دوسرے کو دھمکیاں ، تھرڈ کلاس زبان کا استعمال ، گالی گلوچ ، بہنوں بیٹیوں پر الزام تراشیاں ،اس تبدیلی کی بات جس کا خود کسی کو شعور نہیں ۔ جلسوں میں پاپ میوزک کی آمد نے لیڈروں کے عیبوں کو ڈھکنے کی ناکام کوشش کی ہے کیونکہ جب میوزک رکتا ہے تو لوگوں کو لیڈروں کو سننا پڑتا ہے اور وہیں سے کام خراب ہورہا ہے ۔ جس کے ہاتھ میں مائیک ہے اور سامنے ہزاروں،لاکھوں کا مجمع ہے وہ قیمتی موقع یوں دریا میں بہایا جارہا ہے کہ نہ تو نوجوان کو تاریخ ، نہ حال کی صحیح صورتحال اور نہ ہی مستقبل کیلئے کوئی پائیدار بات بتائی جارہی ہے ۔ بس نعرے ، گالیا ں ، بد زبانی ، ٹھٹہ بازی ، اور پھبتیاں سیکھ کر وہ کارکن گھر جارہا ہے جو آپ کی ٹریننگ سے آپکی تعلیم سے اور آپکی کردار کی مضبوطی سے ایک باشعور شخص بن کر جاسکتا ہے ۔ آپ یہ قیمتی موقع گنوا دیتے ہیں اور آپ لوگوں کی ضرورت سے اتنے لاعلم ہیں کہ آپ کو اس عظیم نقصان کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ عظیم لیڈروں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو ان کی محبت اور عقیدت کے بدلے شعور دیا ، نظام دیا اور راستہ دیا ۔ قائد اعظم کے اقوال زریں پڑھیں تو قوم کیلئے پورا ایک راستہ ہے ۔ یہی حال باقی بڑے رہنمائوں کا ہے ۔
لیڈر کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ کارکن کو سمجھے اور اسکی آواز کی ترجمانی بن کر اپنی شخصیت کے کمالات دکھائے ۔ جس نمایاں شخصیت نے اپنا ناطہ عام کارکن سے جذباتی طور پر توڑ لیا وہ تنہا ہوگیا ۔ کسی بھی قائد کو قائد ِ اعظم اس کے وہ کارکن بناتے ہیں جن کی آواز کو وہ قائد عملی شکل دینے کی صلاحیت اور عزم رکھتا ہے ۔ جیسے ماں اپنے بچوں کی ضرورتوں کو انکے مانگے بغیر جانتی ہے سچا لیڈر وہی ہے جو کارکن کی ضرورت کو اس کے کہے بغیر جان جائے ۔ جس طرح ماں اپنے بچوں کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دنیا کی ہر مشکل سے ٹکرانے کی طاقت رکھتی ہے اسی طرح بڑا لیڈر اپنے کارکنوں کی محبت اور اعتماد کے بدلے ان کی ضرورت کو حاصل کرنے کیلئے زمانے کی ہر مشکل سے ٹکرانے کی طاقت اور عقل رکھتا ہے ۔لیڈر وہ ہے جس کے پاس عزم بھی ہو ، اپنے کارکن سے محبت کا جذبہ بھی ہو اور سب سے بڑھ کر عقل ہو ۔
پاکستان میں اس وقت کوئی لیڈر نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لیڈر کارکن کو عزت ِ نفس کا شعور نہیں دے رہا اور وہ کارکن نہیں بلکہ مرید بن جاتا ہے ۔اس طرح لیڈر مداری اور کارکن بچے جمورے بن گئے ہیں ۔ لیڈر حالات پیدا کرتے ہیں ۔ روٹی اور بھوک نے بھٹو پیدا کیا ، مذہب سے ضیاالحق نکلا ، آمریت سے نفرت سے بے نظیر نکلیں ،آمریت کی گود سے نکل کر بزنس طبقے کی ضرورت سے نواز شریف نکلے،نواز شریف کی ہشیاریوں سے مشرف برآمد ہوئے ، بے نظیر کی بے رحم ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی ہمدردی اور نقلی وصیت سے قوم کو زرداری ملے اور پھر آجکل دو خاندانوں کی بادشاہت اور کھلم کھلا اقربا ء پروری اور کرپشن کیخلاف جنگ کا بگل بجا کر عمران خان دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے دلوں پر چھا گئے ۔ آپ دیکھئے سب لیڈر حالات کی پیداوار تھے انہیں مقبول ہونے کیلئے کوئی نہ کوئی سہارا چاہیئے تھا ۔ مقبولیت کون دیتا ہے ۔۔کارکن ۔۔ تو کارکن کیا ہے ؟ کیا اس کا کردار یہ ہے کہ اس کا سہارا لے کر مقبول ہونے والا لیڈر اسی کو غلام بنا لے ؟ لیڈر کہے "میں یہ سوچتا ہوں ، میں یہ کرنے لگا ہوں "۔لیڈرسوچے بھی اور کام کرے بھی ۔مگر اس کی سوچ کارکن کی ضرورت اور اس کا عمل کارکن کے فائدے کیلئے ہونا چاہیئے ۔ اس کو کارکن کے گرد گھومنا ہوگا ۔ نہ کہ کارکن لیڈر کے گرد پھیرے ڈالے ۔ کارکن فقیر نہیں ہے جو آپکی جھولی سے اتفاقا گرنے والی کسی بخشش کو جھپٹ لے ۔ کارکن کو اپنی عزت ِ نفس اپنی ضرورت اور اپنے حقوق کا مطالبہ صرف مخالف سیاسی پارٹی سے ہی نہیں کرنا ۔ اسے اپنی شناخت اپنی پارٹی کے لیڈر سے بھی مانگنی ہے ۔اس کے کسی بھی غلط فیصلے پر اٹھ کر سوال کرنا ہے کہ تمھیں میرے اعتماد کا خون کرنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟
پاکستان کے لیڈر اتنے لاپروا اور منہ زور اس لئے ہوجاتے ہیں کیونکہ انکے پیچھے چلنے والا ہجوم وقتی فائدوں جو کہ لیڈر کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے لے کر کسی وزارت کے لالچ پر مبنی ہوسکتا ہے ،اسکی ہر جائز ناجائز بات پر سر خم کر تا ہے۔دوسری قسم وہ ہے جن کی عقیدت انہیں لیڈر کے سا منے آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی جرأت نہیں دیتی ۔ عقیدت اور مفاد یہ دو عوامل لیڈر کے اندر گھمنڈ کا زہر بھر دیتے ہیں ۔ پھر وہ کارکنوں کے دبائو کی وجہ سے کوئی اچھا کام کرنے کا پابند نہیں رہتا ۔ آغاز میں قونصلیٹ کی مثال دینے کا مقصد یہ تھا کہ لیڈر چاہے وہ کسی ایک مشن کا ہو یا سارے ملک کا اپنے سننے والوں کی تربیت کرے انہیں شعور دے ۔یہ آپ کے فائدے میں ہی ہے کیونکہ پھر کارکن آپ کو دیوتا نہیں بننے دیں گے اور آپ گھمنڈ میں غلط فیصلے کرنے سے بچ جائیں گے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024