کچھ لوگوں کو میاں نوازشریف کی سیاسی بصیرت پر شک ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پنجاب کے وزیر خزانہ کے طور پر کیا۔ اسکے بعد سیاسی میدان میں فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے گئے، میدان مارتے چلے گئے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دو دفعہ وزیراعلیٰ اور دو مرتبہ وزیراعظم بنے۔ آج انکی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ملک کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔ جو دو دفعہ 1990ء اور1997ء کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی قرار پائی تھی۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کے ہی دم قدم سے آباد ہے۔
میاں نوازشریف کو پنجاب کا وزیرخزانہ، گورنر‘ جنرل غلام جیلانی خان نے بنایا تھا اسکے بعد انہوں نے اپنی سیاست کے راستے خود تلاش کئے‘موقع کی مناسبت سے انہوں نے جس کو درست سمجھا وہ فیصلہ کیا اور انکے فیصلے عموماً انکی سیاسی کامیابی پر منتج ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پتے بڑی دانش اور فہم و فراست سے کھیلے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے اتنے قریب ہو گئے کہ جنرل ضیاء کو کہنا پڑا کہ میری عمر بھی نوازشریف کو لگ جائے اور وہ دعا شاید قبول بھی ہو گئی مگر جب تلافی کاموقع آیا تو انہوں نے ہر فوجی دور اور آمر حکمران کی مذمت کی۔ جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی۔ نوازشریف پر فوج کے پروردہ ہونے کا الزام ہے تو ایسے سیاستدان کتنے ہیں جنہوں نے فوج کا کبھی ساتھ نہیں دیا؟ صرف چند ایک ہونگے ورنہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہی ہماری بدقسمتی اور المیہ ہے۔ سیاستدان اگر مل کر فیصلہ کر لیں کہ طالع آزمائوں کا کسی صورت ساتھ نہیں د ینا تو یقینا وطن عظیم مارشل لائوں کی لعنت سے ہمیشہ کیلئے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر دیگر سیاستدان فوج اور مارشل لاء کا سہارا لینے کے بعد قابل احتساب نہیں ہیں تو اس کا فائدہ نوازشریف کو بھی ملنا چاہیے۔
پاکستان میں 90ء کی دہائی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک انحطاط اور ابتلا کا دور ہے۔ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی حکومتوں کا دو دو مرتبہ دھڑن تختہ ہوا۔ میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور میاں نوازشریف یا پھر انکے ایسے قریبی حواریوں کا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے پے رول سے باہر نہیں نکلے تھے اور انہی پروردہ طاقتوں کے زیر اثر تھے اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ نے ایک دوسرے کیخلاف مسلسل محاذ بنائے رکھا اور محاذ آرائی کو ہی سیاست میں کامیابی کی ضمانت سمجھتے رہے۔ شاید یہ میاں نوازشریف اور انکی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہو۔ بہرحال 1997ء کے انتخابات میں جہاں لغاری نے اپنے تعصب کا مظاہرہ کیا وہیں چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ نے بھی اپنا حساب چکانے کی کوشش کی اور انتخابات سے عین تین روز قبل لغاری کے بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ اس سے بھی میاں نوازشریف نے فائدہ اٹھایا اور 1997ء کے انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے پورے ملک میں کلین سویپ اور پیپلز پارٹی کو کلین بولڈ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف نے جب عوامی طاقت کو اپنے پیچھے پایا تو جنرل کرامت ،جنرل آصف نواز جنجوعہ ،صدرفاروق لغاری، جسٹس سجاد علی شاہ ایسے لوگوں کے ساتھ عوام کی طاقت کے بل پر پھڈا لیا وگرنہ میاں نوازشریف چاہتے تو اپنا دور دوتہائی اکثریت کی موجودگی میں بڑی آسانی سے پورا کر سکتے تھے لیکن میاں نوازشریف کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب بڑے بوٹوں والوں نے ان کو وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر کال کوٹھڑی میں پھینک دیا اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کیلئے جب فضائی راستے سے لاہور یا کراچی لے جایا جاتا تھا تو انکے ہاتھ میں ہتھکڑیاں لگا کر سیٹوں سے باندھ دیئے جاتے تھے ۔پھر اٹک قلعہ میں انکی کوٹھڑی میں سانپ اور نیولے بیک وقت چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ یہ میاں نوازشریف کی بصارت ، سیاسی سوجھ بوجھ اور بہادری کا امتحان تھا۔ میرے خیال میں پہلی دو شقوں کا تو انہوں نے کامیابی سے ثبوت دیا۔ بہادری کے معاملے میں یہاں پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ جدہ میں سرور پیلس میں بیٹھے ہوئے میاں نوازشریف صاحب نے مردصحافت جناب مجید نظامی صاحب سے جب یہ کہا کہ ان حالات میں جبکہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو پوری دنیا میں کرپشن کے حوالے سے ایک مثال کے طور پر جانے جاتے ہیں آپ نے آصف علی زرداری کو مردِ حُر کہہ کر مردہ گھوڑے میں جان بھردی ہے تو جناب مجید نظامی صاحب نے میاں نوازشریف صاحب کو جواب دیا کہ بہادری اور جواں مردی سے اگر آپ بھی آٹھ سال جیل میں گزار لیتے تو میں آپ کو بھی سب سے پہلے مردِ حُر کا خطاب دیتا۔زرداری کو میں نے صرف جیل کاٹنے اور وہ بھی آٹھ سال کے حوالہ سے مردِحر کہا تھا اور اسکی وضاحت ہوتی رہی ہے۔
میاں نوازشریف پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ایک فوجی آمر سے ڈیل کرکے جدہ کے سرور پیلس میں مسرور ہونے کیلئے چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے لیڈر تھے انہوں نے فوج کے ہاتھوں مرنا قبول کر لیا تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے وہ یقینا آج بھی اپنی قبر سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی کمی اور خلا کبھی پر ہو سکے گا؟ کبھی نہیں۔ قوم آج بھی انکی موت پر ماتم کناں ہے۔ نوازشریف جیل میں تھے تو ان کے دل کے کسی کونے میں شاید یہ سوچ بھی ہو کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخ میں امر ہو جانے اور تاریخ میں عظیم مقام حاصل کر لینے سے آخر قوم کا کیا بھلا ہوا؟ قوم تو اجڑ گئی ،برباد ہو گئی۔ نوازشریف نے یہی سوچ کر ہو سکتا ہے قوم کو ایک اور لیڈر سے محروم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ جو موجودہ حالات میں درست اور صائب بھی نظر آتا ہے۔ نوازشریف جدہ چلے گئے۔ اس دوران نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں اے آر ڈی وجود میں آئی۔ جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی شامل تھیں‘ اسی سیاسی اتحاد کی آغوش سے میثاقِ جمہوریت نے جنم لیا جس نے قومی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔
نوازشریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فوجی آمر سے دس سال کا معاہدہ کرکے جدہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ دس سال پورے ہونے سے تین سال قبل وہ پاکستان میں موجود تھے۔ گو انہوں نے اور انکے برادر خورد نے پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن ان کو مختلف اوقات میں ایئرپورٹس سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اسکے بعد نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی مفاہمت سے پاکستان واپسی کا محاذ بینظیر بھٹو کے حوالے کر دیا۔ یوں بینظیر بھٹو 18اکتوبر2007ء کو پاکستان آئیں اور چند روز میں ہی میاں نوازشریف کی واپسی کا بھی اہتمام کر دیا۔ نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی مخالفت کا بھی داغ دھونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (جاری ہے)
90ء کی دہائی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی اختلافات دشمنی کی حدوں کو چھو رہے تھے۔ نوازشریف نے بڑی سمجھداری اور دانش سے اس کا مداوا کر دکھایا۔ وہ پاکستان میں مشرف آمریت کے دوران ہر لمحہ پیپلزپارٹی کے کندھے سے کندھا ملائے نظر آئے۔ پیپلزپارٹی نے بھی مفاہمت کا جواب مزید مفاہمت اور بڑے دل سے کیا۔ نوازشریف نے ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری دنوں میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا محترمہ نے ان کو انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کیا۔ دوسری مرتبہ میاں صاحب نے محترمہ کی شہادت پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ اب میاں صاحب کو جناب آصف علی زرداری نے الیکشن لڑنے پر مجبور کر دیا۔ مسلم لیگ ن نے الیکشن میں حصہ لیا اور جبکہ عام پاکستانی شہری یہ سوچ رہا تھا کہ ان الیکشن کے نتائج میں مسلم لیگ ن کہیں دور دور تک بھی نظر نہ آئیگی مگر میاں نوازشریف کے فیصلے نے مسلم لیگ ن کو پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی بنا دیا۔
مشرف نے 3نومبر2009ء کو عدلیہ کو پابجولاں کرنے کی ایک کوشش کرتے ہوئے ایمرجنسی کا نفاذ کیا جسے محترمہ نے منی مارشل لاء قرار دیکر اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس حوالے سے پہلا لانگ مارچ پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پر ہے۔محترمہ نے ججوں کی بحالی کی مہم چلائی ایک موقع پر وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر کے سامنے جا پہنچیں اور مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا جسٹس افتخار ہمارے چیف جسٹس ہیں۔ حکومت میں آ کر انکے گھر پر خود پاکستان کا جھنڈا لہرائوں گی۔ لیکن بدقسمتی سے محترمہ کو شہید کر دیا گیا تو پیپلز پارٹی کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ کے مطابق فیصلے کرنے میں کچھ وقت لگا کیونکہ یہی حالات کا تقاضا تھاکیونکہ آمر وقت ابھی مسند صدارت پر موجود تھا مگر عوام اور قیادت کے اس خلا نوازشریف نے پُر کر دیا اور ججوں کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ بھوربن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ججوں کی بحالی کا معاہدہ ہوا۔ نوازشریف اپنے اس اقدام سے مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچے اور جب انہوں نے ججوں کے بحال نہ ہونے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر واپس بلا لیے اور بعدازاں 16مارچ 2009ء کو لانگ مارچ کرکے ججوں کو پیپلز پارٹی ،فوج اور غیرملکی آشیرباد سے بحال کرا لیا تو ان کی مقبولیت میں نہ صرف مزید اضافہ ہوا بلکہ بہت سے مخالفین ان کی سیاسی بصیرت کے بھی قائل ہو گئے۔ یقینی بات ہے کہ ان معاملات سے فریق ثانی کی سیاسی ساکھ تو متاثر ہونا ہی تھی۔
مخالفین پر جھوٹے جعلی اور بوگس مقدمات درج کرانا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے مقدمات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں پر بھی بنائے گئے تھے ۔بدقسمتی سے کئی مقدمات دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف درج کروائے تھے۔ اب سیاسی بصیرت دیکھئے۔ نوازشریف اور ان کا خاندان جلاوطنی سے واپس آئے تو کئی مقدمات کا سامنا کیا اور خود کو عدالتوں سے کلیئر کرایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی چاہیے تھا کہ این آر او کی موجودگی کے باوجود جہاں انہوں نے اتنے سال عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح وہ بھی اپنے مقدمات کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ بے صبری کی حد تک این آر او کے پیچھے بھاگنے لگے آج این آر او کا لفظ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت کے لیے ایک ناسور بن کر رہ گیا ہے۔
نوازشریف اس کے باوجود پیپلز پارٹی پر شدید تنقید کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کا حصہ ہے۔ عموماً وہ زرداری صاحب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ دورہ انگلینڈ کے حوالے سے میاں صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ ایسے بیانات سے زرداری صاحب کی اندرون و بیرون ملک ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے۔ لیکن آخر پر کیا ہوتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی نوازشریف سے ملتے ہیں۔ مفاہمت کا سفر نئے انداز سے شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تک صدر مملکت کی ’’لاہ پاہ‘‘ ہو چکی ہوتی ہے۔ آج میاں نوازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کبھی ایوان صدر اور کبھی رائے ونڈ کھانے کی میز پر اکٹھے نظر آتے ہیں۔مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو عوامی کی نظروں میں ناکام ثابت کرنے کے لیے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے دست راست اپنے اپنے کاموں میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اور سیاست کا ماحول کچھ اس طرح کی سیاسی کھچڑی پکاتا ہوا نظر آتا ہے ’’ماں دی سوکن دھی دی سہیلی‘‘۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کو چند وزارتوں کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر جس طرح ٹرخایا گیا ہے یہ میاں برادران کی سیاسی بصیرت کی معراج ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں وہ میاں برادران کی موجودگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے۔ جب ہم ان حالات کا تقابلی جائزہ لیتے تو نوازشریف کی سیاسی بصیرت پر شک کرنے والوں کی سیاسی بصیرت کے ٹیسٹ کروانے کو جی چاہتا ہے۔ (نوٹ: مضمون نگار پیپلزپارٹی کے سینئر جیالے ہیں)
میاں نوازشریف کو پنجاب کا وزیرخزانہ، گورنر‘ جنرل غلام جیلانی خان نے بنایا تھا اسکے بعد انہوں نے اپنی سیاست کے راستے خود تلاش کئے‘موقع کی مناسبت سے انہوں نے جس کو درست سمجھا وہ فیصلہ کیا اور انکے فیصلے عموماً انکی سیاسی کامیابی پر منتج ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پتے بڑی دانش اور فہم و فراست سے کھیلے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے اتنے قریب ہو گئے کہ جنرل ضیاء کو کہنا پڑا کہ میری عمر بھی نوازشریف کو لگ جائے اور وہ دعا شاید قبول بھی ہو گئی مگر جب تلافی کاموقع آیا تو انہوں نے ہر فوجی دور اور آمر حکمران کی مذمت کی۔ جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی۔ نوازشریف پر فوج کے پروردہ ہونے کا الزام ہے تو ایسے سیاستدان کتنے ہیں جنہوں نے فوج کا کبھی ساتھ نہیں دیا؟ صرف چند ایک ہونگے ورنہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہی ہماری بدقسمتی اور المیہ ہے۔ سیاستدان اگر مل کر فیصلہ کر لیں کہ طالع آزمائوں کا کسی صورت ساتھ نہیں د ینا تو یقینا وطن عظیم مارشل لائوں کی لعنت سے ہمیشہ کیلئے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر دیگر سیاستدان فوج اور مارشل لاء کا سہارا لینے کے بعد قابل احتساب نہیں ہیں تو اس کا فائدہ نوازشریف کو بھی ملنا چاہیے۔
پاکستان میں 90ء کی دہائی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک انحطاط اور ابتلا کا دور ہے۔ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی حکومتوں کا دو دو مرتبہ دھڑن تختہ ہوا۔ میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور میاں نوازشریف یا پھر انکے ایسے قریبی حواریوں کا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے پے رول سے باہر نہیں نکلے تھے اور انہی پروردہ طاقتوں کے زیر اثر تھے اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ نے ایک دوسرے کیخلاف مسلسل محاذ بنائے رکھا اور محاذ آرائی کو ہی سیاست میں کامیابی کی ضمانت سمجھتے رہے۔ شاید یہ میاں نوازشریف اور انکی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہو۔ بہرحال 1997ء کے انتخابات میں جہاں لغاری نے اپنے تعصب کا مظاہرہ کیا وہیں چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ نے بھی اپنا حساب چکانے کی کوشش کی اور انتخابات سے عین تین روز قبل لغاری کے بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دیا۔ اس سے بھی میاں نوازشریف نے فائدہ اٹھایا اور 1997ء کے انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے پورے ملک میں کلین سویپ اور پیپلز پارٹی کو کلین بولڈ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف نے جب عوامی طاقت کو اپنے پیچھے پایا تو جنرل کرامت ،جنرل آصف نواز جنجوعہ ،صدرفاروق لغاری، جسٹس سجاد علی شاہ ایسے لوگوں کے ساتھ عوام کی طاقت کے بل پر پھڈا لیا وگرنہ میاں نوازشریف چاہتے تو اپنا دور دوتہائی اکثریت کی موجودگی میں بڑی آسانی سے پورا کر سکتے تھے لیکن میاں نوازشریف کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب بڑے بوٹوں والوں نے ان کو وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر کال کوٹھڑی میں پھینک دیا اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کیلئے جب فضائی راستے سے لاہور یا کراچی لے جایا جاتا تھا تو انکے ہاتھ میں ہتھکڑیاں لگا کر سیٹوں سے باندھ دیئے جاتے تھے ۔پھر اٹک قلعہ میں انکی کوٹھڑی میں سانپ اور نیولے بیک وقت چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ یہ میاں نوازشریف کی بصارت ، سیاسی سوجھ بوجھ اور بہادری کا امتحان تھا۔ میرے خیال میں پہلی دو شقوں کا تو انہوں نے کامیابی سے ثبوت دیا۔ بہادری کے معاملے میں یہاں پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ جدہ میں سرور پیلس میں بیٹھے ہوئے میاں نوازشریف صاحب نے مردصحافت جناب مجید نظامی صاحب سے جب یہ کہا کہ ان حالات میں جبکہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو پوری دنیا میں کرپشن کے حوالے سے ایک مثال کے طور پر جانے جاتے ہیں آپ نے آصف علی زرداری کو مردِ حُر کہہ کر مردہ گھوڑے میں جان بھردی ہے تو جناب مجید نظامی صاحب نے میاں نوازشریف صاحب کو جواب دیا کہ بہادری اور جواں مردی سے اگر آپ بھی آٹھ سال جیل میں گزار لیتے تو میں آپ کو بھی سب سے پہلے مردِ حُر کا خطاب دیتا۔زرداری کو میں نے صرف جیل کاٹنے اور وہ بھی آٹھ سال کے حوالہ سے مردِحر کہا تھا اور اسکی وضاحت ہوتی رہی ہے۔
میاں نوازشریف پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ایک فوجی آمر سے ڈیل کرکے جدہ کے سرور پیلس میں مسرور ہونے کیلئے چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے لیڈر تھے انہوں نے فوج کے ہاتھوں مرنا قبول کر لیا تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے وہ یقینا آج بھی اپنی قبر سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی کمی اور خلا کبھی پر ہو سکے گا؟ کبھی نہیں۔ قوم آج بھی انکی موت پر ماتم کناں ہے۔ نوازشریف جیل میں تھے تو ان کے دل کے کسی کونے میں شاید یہ سوچ بھی ہو کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخ میں امر ہو جانے اور تاریخ میں عظیم مقام حاصل کر لینے سے آخر قوم کا کیا بھلا ہوا؟ قوم تو اجڑ گئی ،برباد ہو گئی۔ نوازشریف نے یہی سوچ کر ہو سکتا ہے قوم کو ایک اور لیڈر سے محروم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ جو موجودہ حالات میں درست اور صائب بھی نظر آتا ہے۔ نوازشریف جدہ چلے گئے۔ اس دوران نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں اے آر ڈی وجود میں آئی۔ جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی شامل تھیں‘ اسی سیاسی اتحاد کی آغوش سے میثاقِ جمہوریت نے جنم لیا جس نے قومی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔
نوازشریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فوجی آمر سے دس سال کا معاہدہ کرکے جدہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ دس سال پورے ہونے سے تین سال قبل وہ پاکستان میں موجود تھے۔ گو انہوں نے اور انکے برادر خورد نے پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن ان کو مختلف اوقات میں ایئرپورٹس سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اسکے بعد نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی مفاہمت سے پاکستان واپسی کا محاذ بینظیر بھٹو کے حوالے کر دیا۔ یوں بینظیر بھٹو 18اکتوبر2007ء کو پاکستان آئیں اور چند روز میں ہی میاں نوازشریف کی واپسی کا بھی اہتمام کر دیا۔ نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی مخالفت کا بھی داغ دھونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (جاری ہے)
90ء کی دہائی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی اختلافات دشمنی کی حدوں کو چھو رہے تھے۔ نوازشریف نے بڑی سمجھداری اور دانش سے اس کا مداوا کر دکھایا۔ وہ پاکستان میں مشرف آمریت کے دوران ہر لمحہ پیپلزپارٹی کے کندھے سے کندھا ملائے نظر آئے۔ پیپلزپارٹی نے بھی مفاہمت کا جواب مزید مفاہمت اور بڑے دل سے کیا۔ نوازشریف نے ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری دنوں میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا محترمہ نے ان کو انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کیا۔ دوسری مرتبہ میاں صاحب نے محترمہ کی شہادت پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ اب میاں صاحب کو جناب آصف علی زرداری نے الیکشن لڑنے پر مجبور کر دیا۔ مسلم لیگ ن نے الیکشن میں حصہ لیا اور جبکہ عام پاکستانی شہری یہ سوچ رہا تھا کہ ان الیکشن کے نتائج میں مسلم لیگ ن کہیں دور دور تک بھی نظر نہ آئیگی مگر میاں نوازشریف کے فیصلے نے مسلم لیگ ن کو پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی بنا دیا۔
مشرف نے 3نومبر2009ء کو عدلیہ کو پابجولاں کرنے کی ایک کوشش کرتے ہوئے ایمرجنسی کا نفاذ کیا جسے محترمہ نے منی مارشل لاء قرار دیکر اسکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس حوالے سے پہلا لانگ مارچ پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پر ہے۔محترمہ نے ججوں کی بحالی کی مہم چلائی ایک موقع پر وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر کے سامنے جا پہنچیں اور مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا جسٹس افتخار ہمارے چیف جسٹس ہیں۔ حکومت میں آ کر انکے گھر پر خود پاکستان کا جھنڈا لہرائوں گی۔ لیکن بدقسمتی سے محترمہ کو شہید کر دیا گیا تو پیپلز پارٹی کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ کے مطابق فیصلے کرنے میں کچھ وقت لگا کیونکہ یہی حالات کا تقاضا تھاکیونکہ آمر وقت ابھی مسند صدارت پر موجود تھا مگر عوام اور قیادت کے اس خلا نوازشریف نے پُر کر دیا اور ججوں کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ بھوربن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ججوں کی بحالی کا معاہدہ ہوا۔ نوازشریف اپنے اس اقدام سے مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچے اور جب انہوں نے ججوں کے بحال نہ ہونے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر واپس بلا لیے اور بعدازاں 16مارچ 2009ء کو لانگ مارچ کرکے ججوں کو پیپلز پارٹی ،فوج اور غیرملکی آشیرباد سے بحال کرا لیا تو ان کی مقبولیت میں نہ صرف مزید اضافہ ہوا بلکہ بہت سے مخالفین ان کی سیاسی بصیرت کے بھی قائل ہو گئے۔ یقینی بات ہے کہ ان معاملات سے فریق ثانی کی سیاسی ساکھ تو متاثر ہونا ہی تھی۔
مخالفین پر جھوٹے جعلی اور بوگس مقدمات درج کرانا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے مقدمات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں پر بھی بنائے گئے تھے ۔بدقسمتی سے کئی مقدمات دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف درج کروائے تھے۔ اب سیاسی بصیرت دیکھئے۔ نوازشریف اور ان کا خاندان جلاوطنی سے واپس آئے تو کئی مقدمات کا سامنا کیا اور خود کو عدالتوں سے کلیئر کرایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی چاہیے تھا کہ این آر او کی موجودگی کے باوجود جہاں انہوں نے اتنے سال عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح وہ بھی اپنے مقدمات کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ بے صبری کی حد تک این آر او کے پیچھے بھاگنے لگے آج این آر او کا لفظ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت کے لیے ایک ناسور بن کر رہ گیا ہے۔
نوازشریف اس کے باوجود پیپلز پارٹی پر شدید تنقید کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کا حصہ ہے۔ عموماً وہ زرداری صاحب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ دورہ انگلینڈ کے حوالے سے میاں صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ ایسے بیانات سے زرداری صاحب کی اندرون و بیرون ملک ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے۔ لیکن آخر پر کیا ہوتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی نوازشریف سے ملتے ہیں۔ مفاہمت کا سفر نئے انداز سے شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تک صدر مملکت کی ’’لاہ پاہ‘‘ ہو چکی ہوتی ہے۔ آج میاں نوازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کبھی ایوان صدر اور کبھی رائے ونڈ کھانے کی میز پر اکٹھے نظر آتے ہیں۔مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو عوامی کی نظروں میں ناکام ثابت کرنے کے لیے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے دست راست اپنے اپنے کاموں میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اور سیاست کا ماحول کچھ اس طرح کی سیاسی کھچڑی پکاتا ہوا نظر آتا ہے ’’ماں دی سوکن دھی دی سہیلی‘‘۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کو چند وزارتوں کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر جس طرح ٹرخایا گیا ہے یہ میاں برادران کی سیاسی بصیرت کی معراج ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں وہ میاں برادران کی موجودگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے۔ جب ہم ان حالات کا تقابلی جائزہ لیتے تو نوازشریف کی سیاسی بصیرت پر شک کرنے والوں کی سیاسی بصیرت کے ٹیسٹ کروانے کو جی چاہتا ہے۔ (نوٹ: مضمون نگار پیپلزپارٹی کے سینئر جیالے ہیں)