’’مرنے سے قبل قرطبہ ضرور دیکھو‘‘

Apr 21, 2025

حکیم راحت نسیم سوہدروی

تاریخ اسلام میں سپہ سالار طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس کی فتح کے بعد مسلمانوں نے وہاں ساڑھے سات سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی۔یورپ کی اس عظیم الشان سلطنت کو علم و حکمت اور فنون کا مرکز بنا کر اس کی روشنی سے یورپ کومنور کر دیا۔ اس دور میں مسلمانوں کا یورپ ہی نہیں دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ پھرجب اندلس کے ان مجاہدوں نے  خدا واحدہ لاشریک کو فراموش کردیا تو تاریخ عالم میں صدیوں گزرنے کے باوجود سرزمین اندلس کا چپہ چپہ ان کی ہلاکت بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہے۔
 فرڈ نیارڈ نے 1236ء میں تقریباً آٹھ سو سال قبل جب مسلمانوں کو شکست دیکر اندلس( اسپین) پر اسلامی اقتدار کا خاتمہ کیا تو مسلمانوں کو ملک بدر بھی کردیا گیا۔ مسلمانوں کی تعمیر کردہ عمارات اور مساجد رائبوں کے زیر قبضہ آ گئیں۔عبدالرحمن اول نے وادی الکبیر کے کنارے 758ء میں علیشان مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور اسکی توسیع دسویں صدی تک جاری رہی۔ صدیاں گزر گئیں ہیں مگر آج بھی اس کے آثار سے وہ کچھ نظر آتا ہے کہ عقل انسانی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔اسپین میں گرجا گھر(Cathdral) میں تبدیل شدہ اس مسجد کے منبر اور دیوان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی البتہ اذان اورنماز پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔تقریباً آٹھ صدیاں گزرنے پر علامہ اقبال کو یہ شرف و امتیاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اس پابندی کے باوجود مسجد قرطبہ میں نہ صرف اذان دی بلکہ نماز ادا کی۔ اگرچہ اس حوالے سے علامہ اقبال کی کوئی تحریری شہادت موجود نہیں ہے تاہم تصویری ثبوت موجود ہے اور مختلف افراد نے تفصیلات بتائی ہیں جن کے مطابق پہلی گول میز کانفرنس جو 12 نومبر 1930ء تا 19جنوری 1931 تک لندن میں ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کو شریک نہ کیا گیا۔دوسری گول میز کانفرنس 7ستمبر تا یکم دسمبر 1931ء تک ہوئی اس میں علامہ اقبال شریک ہوئے اور کانفرنس کے خاتمے پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ برطانیہ سے فلسطین چلے گئے اور موتمر عالم اسلامی میں الوداعی تقریر کرکے واپس ہندوستان آگئے۔مولانا عبدالمجید سالک کے مطابق’’ تیسری گول میز کانفرنس کا آغاز16نومبر کو ہونا تھا۔ علامہ اقبال 13 اکتوبر1933ء کو لاہور سے فرنٹیر میل پر بہ عزم یورپ روانہ ہوئے۔مقصد یہ تھا کہ لندن پہنچنے سے پہلے ویانا، بوراپٹ، برلن وغیرہ کے علمی مراکز میں دوچار روز قیام کرتے جائیں۔
(ذکر اقبال صفحہ 178 )
علامہ اقبال 12نومبر کو لندن پہنچے تیسری گول میز کانفرنس17نومبر کو شروع ہوکر17دسمبر 1933ء میں ختم ہوگئی۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد علامہ پیرس پہنچے اور علمی حلقوں کے علاوہ برگستان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد علامہ نے ہسپانیہ کا دورہ کیا۔( صفحہ180 )
علامہ اقبال خود ایک اخبار کے نامہ نگار سے سفر اسپین بارے فرماتے ہیں۔
’’مجھے لندن میں اسپین جا کر لیکچر دینے کی دعوت ملی تھی۔اسلام کے مرکز کو دیکھنے کا مشتاق تھا۔میں نے دعوت قبول کرلی‘‘۔( آئینہ اقبال مرتبہ محمد عبداللہ قریشی صفحہ198 )
’’ قرطبہ پہنچنے کے بعد آپ(علامہ) وہاں کی یگانہ روزگار مسجد میں تشریف لے گئے جواب گرجا گھر بن چکی ہے۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے گائیڈ سے کہا میں یہاں نماز ادا کرناچاہتا ہوں۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ بات پادریوں کو ناگوار ہوگی اور وہ ہرگز اجازت نہ دیں۔ اقبال اس جگہ مصلی بچھا کر بیٹھ گئے۔ جس کو بے حد مقدس سمجھا جاتا ہے۔اتنے میں ایک پادری آپہنچا اور زور شور سے احتجاج کرنے لگا۔اقبال نے پادریوں کی طرف رخ کرکے گائیڈ سے کہا ایک دفعہ مکہ میں عیسائیوں کا وفد کوئی التماس لے کر پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس کے اراکین کو مسجدنبوی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو وہ متردد تھے کہ انہیں اسکی اجازت دی جائے گی کہ نہیں۔ آنحضرت ؐکو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ یقینا اپنے طور طریقے کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔ اگر عیسائیوں کو آنحضرتؐ نے اپنی ہی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔انہیں ایک ایسی جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت کیوں نہیں جو کبھی مسجد تھی۔ اقبال سے یہ سن کر کہا میں بڑے پادری سے پوچھ کر آتا ہوں۔اقبال نے پادریوں اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت لے کر مسجد میں اذان دی جسکی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہوئی تھی نماز پڑھی۔ آپ کی نماز کی حالت میں ایک پادری نے تصویر بھی اتاری‘‘(ملفوظات اقبال مرتبہ محمود نظامی صفحہ 318 )مولانا عبدلامجید سالک لکھتے ہیں۔’’ ڈاکٹر صاحب نے یہ سارا واقعہ سید امجد علی کے نام لکھ بھیجا‘‘( ذکر اقبال صفحہ138 )علامہ اقبال کا یہ خط تا حال منظر عام پر نہیں آسکا۔ وگرنہ علامہ کے قلم سے یہ تفصیل سامنے آچکی ہوتی۔
مسجد قرطبہ میں علامہ اقبال کی دو تصاویر چھپ چکی ہیں جو روزگار فقیر صفحہ49,48 پر موجود ہیں۔ یہ دونوں تصاویر ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ایک تصویر میں وہ مصلیٰ پر قعود کی حالت میں نماز ادا کرنے میں مشغول ہیں جبکہ دوسری تصویر میں مصلیٰ پر ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے ہیں۔اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نماز سے فراغت کے بعد کی ہے۔یہ تصاویر مسجد کے اس مقام پر لی گئیں ہیں جو بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے جس جگہ نماز ادا کی وہ مسجد قرطبہ کا دلان ہے اس ہاتھ ایک محرابی راستہ ہے جو خلیفہ الحکم ثانی نے 961ء میں تعمیر کرایا تھا۔یہ فن تعمیر کے حوالے سے انتہائی منفرد خصوصیات کا حامل ہے اور اس قدر اہم ہے کہ اسلامی فن تعمیر اور آرٹ کے نقطہ نظر سے تقریباً ہر کتاب میں مختلف زاویوں نے اس محراب کی تصویرREPRODUCE کی جاتی ہے کہ اس فن تعمیر کے حوالے سے اس کے محاسن بیان کئے جاتے ہیں۔
’’ ڈاکٹر صاحب کو قدیم عربی تہذیب سے نہایت دلچسپی بلکہ عشق تھا اور اسپین قدیم زمانے میں عربی تہذیب کا مرکز تھا اور اس زمانے میں اس کا مدفن ہے اس لئے اس سلسلے میں انہوں نے اسپین کا سفر کیا اور اسکی ہرچیز سے متاثر ہوئے۔ڈاکٹر صاحب نے خالص مذہبی اور تاریخی جذبات کے زیر اثر اسپین کا سفر کیا تھا اور اْس حیثیت سے وہاں کی ہر چیز پر نظر ڈالی۔اسپین کے سفر میں ڈاکٹر صاحب کو پروفیسر امین سے ملاقات کا موقع ملا (اقبال کامل29تا32 از مولانا عبدالسلام ندوی) علامہ اقبال نے اپنے سفر اسپین اپنے فرزند جاوید اقبال کے نام دوکارڈ بھیجے جو تصویری تھے جس پر مسجد قرطبہ کے عکس تھے اس کے ساتھ ہی لکھا کہ ’’میں خدا کا شکر گزارہوں کہ میں اس مسجد کو دیکھنے کیلئے زندہ رہا مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے خدا کرے تم جواں ہوکر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو‘‘۔علامہ اقبال مسجد قرطبہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسپین سے۔ واپسی پر پیرس( فرانس ) سے ایڈیٹر انقلاب کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ
’’مرنے سے قبل قرطبہ ضرور دیکھو،
علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ پر ذیل کی نظم  اپنے قیام اسپین  کے دوران لکھی جس میں مسجد کی تعمیر معماروں کے جذبے زمان و مکان فلسفہ اور عشق کا مسجد سے تعلق  اسپین کے اسلام سے محبت کرنے والے ان لوگوں کو جن کے اجداد مسلمان تھے،ان  کے اوصاف ِحمیدہ کو اسلامی دنیا کی سربلند ی کیلئے قران حکیم سے تعلق جوڑنے پر زور دیا ۔علامہ اپنی نظم میں اہل اسپین کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ صدیاں گذر گئیں مگر تمہاری فضا سے اللہ کی جانب بلانے والی صدا بلند نہیں ہوئی ۔اسی نظم میں آپ نے اسپین کے مسلمانوں کو بھی جنھجوڑا جس سے ان کے جذبات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

مزیدخبریں