علامہ اقبال عاشق ِ رسول ﷺ

علامہ اقبال کا انتقال21 اپریل 1938  ء لاہور میں ہوا تھا ، وہ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان سیاستدان اور تحریک ِ پاکستان کی اہم شخصیات میں سے تھے ، بحیثیت سیاستدان ان کا سب نمایاں کارنامہ ’’ نظریہ پاکستان ‘‘ کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا ، یہ نظریہ علامہ کو پاکستان کا نظریاتی باپ کا درجہ سونپ گیا ان کا مزار اقبال حضوری باغ کے قریب شاہی مسجد کے جنوب مشرقی مینار کے سایہ میں واقع ہے ، اقبال کاکشمیری پنڈتوں سے تعلق تھا ، ان کے جدِ اعلیٰ بابا صالح نے سترہویں صدی عیسوی میںاسلام قبول کیا تھا ، علامہ اقبال نے ابو عبداللہ مولانا غلام حسین کے مکتب ’’ عمر شاہ ‘‘ میںابتدائی تعلیم کا آغاز کیا ،بعد اذاں مولانا میر حسن کی خواہش پر ان کے مکتب ’’ حسام الدین ‘‘ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی تھی ۔
1883 ء میں اقبال نے اسکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان 1893 ء میں درجہ اول سے پاس کیا ، 1895 ء میں انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد 1897 ء گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور 1899 ء میں ایم اے ( فلسفہ) پاس کیا ،1904 ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے ، یورپ جانے سے پیشتر یعنی 1905 ء تک اسی کالج میں فلسفہ بھی پڑھایا، اسی سال اعلیٰ تعلیم کے غرض سے یورپ کے ٹرنٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا،1907 ء میں میونخ یونیورسٹی (جرمنی) میں انگریزی مقالہ ’’ ایران میں ما بعد الطبیعات کا ارتقاء‘ کے موضوع پر ڈگری کے لئے داخلہ لے کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
1908 ء لندن میں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال اقبال کا مقالہ انگریزی میں شائع ہوا تھا ، اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا لیکن اقبال کی نظموں کی تعداد غزلوں سے زیادہ ہے ، ان کی بنیادی وجہ شہرت اردو اور فارسی کی شاعری ہے، اپنے ابتدائی دنوں میں علامہ اقبال لاہور حصولِ تعلیم کے لئے جب آئے تو لاہور کے علمی ادبی مرکز میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو ابھرنے اور تربیت پانے کا سنہری موقع میسر آیا ، مرزا ارشد گورگانی دہلوی اور میر ناظم لکھنوی جیسے پختہ کلام اور استادی مرتبے کے شاعر موجود تھے اقبال نے رفتہ رفتہ مرزا ارشد سے اپنے شعروں پر اصلاح بھی لی ، اس زمانے میں علامہ غزلیں کہا کرتے تھے ، یہ غزلیں چھوٹی بحروں میں سادہ خیالات کا اظہار لئے ہوتی تھیں لاہور کے بازارِ حکیماں کے ایک مشاعرے میں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ 
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
اس شعر کو سنتے ہی محفل مشاعرہ میں موجود سخن فہم اصحاب جھوم اُٹھے ، مرزا ارشد گورگانی دہلوی نے پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہو گا، یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پربھی توجہ مرکوز کی ان کی پہلی مطبوعہ نظم ’’ ہمالہ‘‘ہے جو مخزن لاہور کے پہلے شمارے ’’ کوہستان ہمالہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بانگِ درا میں ’’ہمالہ‘‘ کے عنوان سے شامل کی گئی ہے اس نظم کو بے حد پسند کیا گیا جس سے ان کی شہرت پھیلنا شروع ہو ئی ، اسی دور میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھیں ، جو کہ نہایت ہی خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنی، بچوں کی دعا کے نام سے کہی نظم اسکول کے ہر بچے کی زباں پر دعا بن گئی ۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری 
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 
شاعری میں علامہ اقبال کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا ، یہی وجہ ہے کہ اقبال کو دورِ جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے ، علامہ اقبال کے سپوت ڈاکٹر جاوید اقبال نے ’’ زندہ ورود ‘‘ میں لکھا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نور محمد سلطان العارفین حضرت قاضی سلطان محمود دربار آوان شریف کے مرید تھے ، جو سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے ، اسی بنا پر اقبال بھی بچپن سے سلسلہ قادریہ میں بیعت کئے ہوئے تھے ۔
1936 ء میں مثنوی پس چہ باید کردار اے اقوام مشرق کا شانِ نزول یہ ہے کہ اقبال نے بھوپال میں ایک را ت خواب میںسر سید احمد خان مرحوم کو اپنے سے مخاطب پایا وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ تم اپنی بیماری کا ذکر سرورِ کائنات کی خدمت میں کیوںنہیں کررہے‘‘ عاشق سرورِ کائنات علامہ اقبال کی آنکھ کھلی تو جو شعر زباں پر آیا وہ تھا ۔
باپر ستان شب دارم ستیز 
باز رو غن در چراغ من بریز !
پھر چند اشعار حضور کریم سے عرض احوال میں ہوئے ،شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری میں قرآنی حوالوں کے علاوہ عشقِ محمد  ﷺنمایاں ہے ، علامہ اقبال چاند کو مخاطب کرتے ہوئے عشق رسول ﷺ میں کہتے ہیں کہ 
اے چاند حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
طوف ِ حریم خاکی تیری قدیم خُو ہے 
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تو کسی کا یہ داغ آرزو ہے 
میں مضطرب زمیں پر بے تاب تو فلک پر 
تجھ کو بھی جستجو ہے مجھ کو بھی جستجو ہے 
نظم چاند علامہ اقبال کی شاعری کی بہترین مثال ہونے کے علاوہ عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھر پور اظہار محبت کی دلیل ہے، نظم کا مصرع ’’ یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں ‘‘ شق القمر کی طرف اشارہ ہے اور اگلے مصرع میں آپؑ سے عشقِ محبت کو داغِ آرزو سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں زمیں پر بے قرار ہوں اور تم آسمان پر تمہیں بھی اس پاک ہستی کو دیکھنے کی جستجو ہے اور مجھے بھی، اسی طرح اقبال نے معراج شریف کے واقع کو ایک شعر میں پرو دیا ۔
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں 
علامہ اقبال کے بارے میں مر حوم و مغفور علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ علامہ اقبال سچے عاشق رسول ﷺ تھے ان کی شاعری میں آپ ﷺ سے محبت اور عقیدت کے پھول کھلتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

بجٹ بھی اِک گورکھ دھندہ ہے

اندر کی باتشہباز اکمل جندرانصحافت میں رپورٹنگ کے شعبے سے کتنے ہی برس وابستہ رہنے کے بعد بھی کامرس کے شعبے سے نابلد رہا- کامرس ...