
طویل عرصے سے سرخ نارنگیوں کا دیس فلسطین اقوام ِعالم کی بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہے۔انبیا کی یہ سرزمین ایک زمانے میں امن اور آشتی کا گہوارہ تھی۔ مسلم اقتدار کے زیرِ اثر تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار یہاں امن کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ آج کے فلسطین کا المیہ یہ ہے کہ استعماری سازشوں سے یہ ملک صرف تاریخ کے صفحات پرتو موجود ہے لیکن فلسطین اتھارٹی خودمختار زمین سے محروم ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، لیکن 1878ءمیں حیفہ کے مقام پر پہلی نوآبادکار بستی بسائی گئی،اس کے بعد ناجائزآبادکاری کا یہ سلسلہ عام ہوا۔آج تک آتش وآہن کا یہ کھیل جاری ہے۔برصغیر کی تاریخ میںعلامہ اقبال پہلے شاعر ہیںجو مشرق وسطیٰ میںنو آبادیاتی نفسیات اور سامراجی چالوں سے خوب آگاہ تھے، اس لیے ان کی شاعری اور نثر میں نوآبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے فلسطین کی صورتِ حال پر مسلسل نظر رکھی۔ عالم اسلام کو پیش آنے والے دیگرمسائل کی طرح فلسطین کے حالات نے بھی اقبال کے ذہن میں ہمیشہ ایک طوفان بپا کیے رکھا۔ اقبال کے پس کربیے (nostalgia)کا سنہری حصہ ان کا دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے سفر میں مصرسے بہ ذرےعہ ریل فلسطین روانہ ہونا تھا،وہاں ان کاقیام تقریباََ نودن کا تھا۔ اس سفر میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا شوکت علی اور حافظ عبدالرحمن بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ اس دَورے کا مقصد مفتی اعظم فلسطین، سید امین الحسینی کی دعوت پر مو¿تمر عالم اسلامی کی کانفرنس میں شریک ہونا تھا ۔انھوں نے وہاں کی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ سرکاری اور نجی ظہرانوں اور عصرانوں میں معزز مہمان کے طور پر مدعو کیے گئے۔ اقبال کا دَورئہ فلسطین میں فطری انہماک دیکھنے والا تھا۔ تقسیم فلسطین کی سازش سامنے آئی تو اقبال کا صدمہ دیدنی تھا۔ انھوں نے اپنے ایک خط میں قائداعظم محمدعلی جناح کولکھاکہ مَیں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں، میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندستان کے لیے، بلکہ اسلام کے لیے بہت اہم ہے، یہ ایشیا کا دروازہ ہے، جس کے لیے اہل مغرب کی بدنیتی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دِنوں میں اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال کو تقسیم فلسطین کے تصور نے مسلسل بے چین کیے رکھا۔ انھوں نے اس حوالے سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔اس محاذ پر اقبال نے سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا، مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کُل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود، برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔اقبال 30جولائی 1937ءکو فارکوہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے عربوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا برملااظہارکرتے ہیںکہ انگریز قوم کو اس بات پر آمادہ کیا جا ئے کہ وہ اُن وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں سے کیے ہیں۔
’اقوامِ متحدہ‘ کی پیش رَو ’مجلس اقوامِ عالم‘ کا رویہ بھی مسئلہ فلسطین پر انتہائی سردمہری سے عبارت تھا۔ اقبال اس کامکمل ادراک رکھتے تھے، چنانچہ انھوں نے اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کی۔اس بات پرزوردیا کہ لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوامِ عالم) کو چاہیے کہ بیک آواز اس ظلم و طغیان کے خلاف صداے احتجاج بلند کرے ۔ برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں۔حضرت علامہ نے اپنی شاعری میںبھی جمعیت اقوامِ عالم کے منفی کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر جو آوازیں اٹھیں، وہ زیادہ تر آہ و بکا، شور و غوغا یا طنزیہ اسلوب کی غمازی کرتی ہیں؛ جب کہ حضرتِ علامہ نے منطقی استدلال اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو شعر و سخن کا موضوع بنایا۔اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دینے کے لیے برطانوی حکام نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی سرزمین عرصہ دراز سے خالی پڑی تھی،یہاں طویل عرصے تک یہودیوں کی حکومت رہی، اس لیے ان کا گذشتہ دو ہزار سال سے اس سرزمین کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ہے، اسی بِنا پر یہاں اسرائیل کا قیام ضروری ہے۔اقبال اپنی علمی بصیرت کے سبب مشرقِ وسطیٰ سے متعلق عالمی طاقتوں کے مذموم ارادوں سے بخوبی آگاہ تھے، چناںچہ اسرائیل کے قیام (1948ئ) سے کئی سال پہلے ضربِ کلیم میں شامل ایک نظم ’شام و فلسطین‘ میں کہتے ہیں، اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق صرف اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا، جنھوں نے سات سو سال تک وہاں حکمرانی کی عمدہ مثال قائم کی۔ ان اشعار میں منطقی انداز سے یہودیوں کے دعوے کی نفی کی گئی ہے:
اقبال کی اپنے عہد کے معروضی حالات پر گہری نظر تھی ،وہ یہ شعور رکھتے تھے کہ خوے غلامی ایک نسل سے دوسری نسل میں سرایت کر جاتی ہے اور رفتہ رفتہ امتیں اس جرا¿تِ رندانہ سے محروم ہو جاتی ہیں، جن سے ان کا اجتماعی تشخص ابھرتا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ماخذ و مصادر میں قرآن سب سے مقدم ہے، اس لیے فلسطین سے ہزاروں کوس دُور ہونے کے باوجود فلسطینی بھائیوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونا عین فطرتِ اقبال کا حصہ ہے اور بجز نکتہ ایمان کی تفسیر کے اَور کچھ نہیں۔