تھک گیا ہوں
تھک گیا ہوں چلنے کا اب حوصلہ نہیں باقی
کیا کہوں اس دل میں کوئی تمنا نہیں باقی
بات یہ نہیں کہ اب شوق منزل نہیں رہا
بات یہ ہے کہ اب وہ ولولہ نہیں باقی
حسن و جمال کے میلے تو اب بھی جواں ہیں
بات یہ ہے کہ اب حاصل میلہ نہیں باقی
چند سکے تو ویسے بھی خیرات میں مل جاتے
کیا کریں اپنے ہاتھ اب ایسا پیالہ نہیں باقی
منزل ملے نہ ملے بات قسمت کی ہے ساری
دن رات ہم چلے کسی سمت کوئی رستہ نہیں باقی
ایک ایک کر کے بجھ چلی چنگاری دل کی
اب کوئی شعلہِ نہیں باقی کوئی آہ نہیں باقی
حفیظ جس سے منسوب تھے سارے سلسلے دل کے
اب وہ منزل نہیں باقی وہ نقش پا نہیں باقی
( حفیظ مغل ، برطانیہ)