آج جب ہم یوم اقبال منا رہے ہیں ،تو ہمیں کشمیر کا مسئلہ بھی یاد آرہا ہے ۔علامہ مرحوم کشمیری تھے انہیں کشمیر سے بے انتہا لگائو تھا ،کشمیر جنت نظیر پر ان کے افکار ،ان کی کلیات میں سجے ہوئے ہیں۔کہنے کو تو کشمیر کا مسئلہ اس وقت ہی پیدا ہوگیا تھا جب کشمیر کو مہاراجہ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا،یہ سودا اس مصرعے کاعکاس ہے کہ قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ علامہ اقبال نے کشمیر کی مظلومیت پر آنسو بہائے کشمیر کی دل فریب غلام وادیاں یاد دلانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ،ان کی وفات کے بعد کشمیر پر بھارت نے جارحانہ قبضہ کر لیا،اس قبضے کی تفصیل دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔
جب قائد اعظم نے پاک فوج کو حکم دیا کہ کشمیر سے جارح بھارتی فوج کو نکال باہر کرے تو یہ پانچ اگست بیس سو ابیس کا واقعہ نہیں۔
پچھلے چند دنوں سے یہ بات غلط العام ہوگئی ہے کہ بھارت جب تک پانچ اگست کے اقدامات کو واپس نہیں لیتا تب تک پاکستان اس کے ساتھ معمول کے تجارتی تعلقات استوار نہیں کرسکتا ،یہ بات وزیر اعظم نے ٹیلی فونک کانفرنس میں بھی کی اور بلاول بھٹو نے بھی یہی نقطہ اٹھایا اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ قومی اقتصادی کونسل نے بھارت سے چینی کپاس اور دھاگے کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا عام طور پر یہ کونسل جو فیصلے کرتی ہے وفاقی کابینہ ان کی من و عن منظوری دے دیتی ہے ،کونسل کی تجویز کو رد کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کی اب تک کوئی مثال سامنے نہیں آئی شاید ایسا پہلی بار ہوا کہ وفاقی کابینہ میں حتمی منظوری کے لیے یہ بات پہنچی تو وزیر خارجہ سمیت کئی وزرا ء نے اس کی مخالفت کی جس پر کابینہ نے اس کو یہ کہہ کر منظور نہیں کیا کہ پانچ اگست کے بھارتی اقدامات کی موجودگی میں بھارت سے تجارت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،میں یہاں یہ بحث نہیں کرنا چاہتا کہ بھارت سے تجارت تو جاری رہتی ہے اور پانچ اگست کی آڑ لے کر اس سے پہلے بھارت کے ساتھ کسی درآمد برآمد کو بند نہیں کیا گیا،مجھے حکومتی فیصلوں کی وجوہات کا علم نہیں ہے اور نہ میں جاننا چاہتا ہوں کیونکہ بھارت کے ساتھ ہر حکومت کی پالیسی اپنی اپنی ہوتی ہے،نواز شریف نے واجپائی کو لاہور بلا کر مینار پاکستان پر خطاب بھی کروا دیا اور اس کے منہ سے یہ بھی کہلوا دیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اسی نواز شریف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے ۔اس نواز شریف نے اپنی نواسی مہر النسا کی رخصتی میں بغیر کسی پیشگی اعلان کے نریندر مودی کو پلائو کھانے کے لیے جاتی امرا مدعو کرلیا تھا ۔کہنے کو تو عمران خان نے بھی بھارت کو پیش کش کی تھی کہ وہ ایک قدم اٹھائے ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے مگر بھارت نے پانچ اگست کے اقدامات کیے ،پلوامہ کا ڈرامہ کیا پھر بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کی اور بالآخر پاک فضائیہ کو بھارت کو منہ توڑ جواب دینا پڑا ،جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نے کشمیر پر جذباتی تقریر کی اور دنیا کو خبر دار بھی کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اس لیے آئندہ دونوں کے درمیان تصادم ہوا تو تباہی کا دائرہ برصغیر کی حدوں سے باہر تک پھیل جائے گا۔سابق امریکی صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ مودی نے انہیں کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا ہے لیکن مودی کی طرف سے اس کی تردید آگئی اب امریکہ میں نیا صدر آیا ہے، معلوم نہیں وہ کیا بیک چینل ڈپلومیسی ہے جس کی وجہ سے کنٹرول لائن پر شعلے اگلتی توپیں خاموش ہوگئیں اور پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کا لہجہ بھی نرم پڑگیا ،مودی نے یوم پاکستان پر مبارک باد کا پیغام بھیجا اور عمران خان کورونا میں مبتلا ہوئے تو صحت یابی کی دعا کی۔ اس سے گمان ہوا کہ برف پگھل گئی ہے اور ساتھ ہی قومی اقتصادی کونسل کا فیصلہ سامنے آیا ،اب معلوم نہیں کہ یہ خیال کسے آیا کہ یہ فیصلہ غلط ہے یا اتنی جلدی یہ فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے تھا اس لیے یہ کہا جانے لگا کہ بھارت پانچ اگست کے اقدامات کو واپس لے ۔
یہ سارا پس منظر بیان کرنے کے بعد میں حکومت اور بلاول بھٹو کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ پانچ اگست 2019ئکو پیدا نہیں ہوا ہاں اس میں سنگینی ضرور آئی،حقیقت میں یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب سنتالیس میں دو ملک وجود میں آئے اور ریڈکلف کمیشن نے پنجاب کی سرحد کا تعین کرتے ہوئے ڈنڈی ماری اور سترہ اگست سنتالیس کو یہ فیصلہ سنایا کہ پٹھانکوٹ کا علاقہ بھارت میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس طرح کشمیر کا مسئلہ پیدا ہونے کی تاریخ سترہ اگست انیس سو سنتالیس ہے نہ کہ پانچ اگست دو ہزار انیس۔ سترہ اگست انیس سو سنتالیس کے بعد سے کشمیر ایک بھونچال کا شکار ہوا اور بھارت نے مہاراجہ کشمیر کے ایک جعلی الحاق کشمیر کا اعلان تیار کیا جس پر عمل در آمد کے لیے اس نے اپنی فوج کشمیر پر اتار دی ،وہ دن اور آج کا دن کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،بھارتی فوج ہر گزرتے لمحے کشمیریوں پر نئے مظالم ڈھاتی ہے،کشمیری لیڈروں کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگانے والے نوجوانوں کو سرعام شہید کیا جاتا ہے ،کشمیری خواتین کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، گودی کے بچوں کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے چھلنی کی جا رہی ہیں، پچھلے بہتر برس میں کشمیر کے برف زاروں اور سیبوں کے درختوں سے خون ٹپک رہا ہے ، یہی وہ دور ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر کھلی جنگیں ہوئیں،پہلی جنگ سنتالیس سے شروع ہوکر انچاس تک جاری رہی سلامتی کونسل نے جنگ بند کروائی اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے استصواب کی تجویزمنظور کی ،بھارت نے یہ استصواب آج تک نہیں ہونے دیا ۔بھارت اور پاکستان پینسٹھ میں بھی کشمیر کے پہاڑوں پر آمنے سامنے لڑے اور جب بھارت نے دیکھا کہ پاکستانی افواج تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں تو اس نے چوروں کی طرح بین الاقوامی سرحد کو روندتے ہوئے لاہور پر حملہ کر دیا ،یہ جنگ بھی اقوام متحدہ کو بند کرانا پڑی ،اکہتر میں بھارت اور پاکستان پھر ایک دوسرے سے ٹکرائے اور کوئی ایسا جادو ہوا کہ سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن بنا دیا گیا،یوں کارگل کا علاقہ جو انچاس سے پاکستان کے کنٹرول میں تھا وہ بھارت کے قبضے میںچلا گیا۔ چوراسی میں بھارت نے دنیا کے بلند ترین محاذ پر جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی علاقوں پر قبضہ جما لیا ،سیاچین کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور اس کے لیے افواج پاکستان نے بے بہا قربانیاں دی ہیں ،ننانوے میں جنرل مشرف نے کارگل میں وہی کیا جو بھارت نے سیاچین میں چوراسی میں کیا تھا لیکن حکومت پاکستان سمیت دنیا نے پاکستانی فوج کے اس آپریشن کی مخالفت کی ،پانچ اگست انیس کو کشمیر کے مسئلے میں جوہری تبدیلی یہ آئی کہ بھارت نے اپنے آئین میں آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے حذف کرکے کشمیر کا تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور پوری کشمیری قیادت کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے قید و بند میں ڈال دیا ،اس طرح شیخ عبداللہ کی اولاد،فاروق عبداللہ،محبوبہ مفتی اور دیگر بھارت نواز لیڈر بھی قید و بندکا شکار ہوگئے ، کشمیر کو ایک قیدخانے میں تبدیل کردیا گیا ، کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے ٹیلی فون اور انٹر نیٹ سروسز بند کردی گئیں،ویسے تو انسانی حقوق کے اداروں کو کشمیریوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن پھر بھی کسی عالمی ادارے نے سری نگر اترنے کی کوشش کی تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں تو انہیں کان سے پکڑ کر بھارت نے باہر نکال دیا ۔
تو پیارے قارئین،کشمیر کا مسئلہ اس دن پیدا ہوا جب قائد اعظم نے افواج پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ کشمیر سے بھارتی فوج کو نکال باہر کرے،آپ سب جانتے ہیں کہ قائد اعظم نے یہ حکم پانچ اگست بیس سو انیس کو جاری نہیں کیا تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024