لاک ڈائون: وزیراعظم کو بھی علما، مشائخ نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرادی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) علماء کرام نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کے ایک وفد نے پیر کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی احتیاطی تدابیر کے حکومتی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے وفد میں پیر امین الحسنات شاہ، پیر شمس بن الامین، پیر نقیب الرحمان، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا طاہر محمود اشرفی، مولانا حامد الحق حقانی، حافظ غلام محمد سیالوی، علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ پیر سلطان فیاض الحسن، مفتی محمد گلزار نعیمی، مولانا سید چراغ دین شاہ اور مولانا ضیاء اللہ شاہ شریک تھے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے گورنر سندھ عمران اسماعیل، مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی نے شرکت کی۔ جب کہ ملاقات میں وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر مذہبی امور نور الحق قادری، معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور چیئرمین اسلامی نظریہ کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز و دیگر بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا ہے کہ ملک بھر کے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے وزیراعظم کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ حکومت نے آئندہ جمعۃ المبارک کو یوم رحمت اور یوم توبہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے علماء کرام سے کہا گیا ہے کہ 20 نکاتی متفقہ لائحہ عمل پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان سے علماء کرام کے وفد کی ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے پیر نور الحق قادری نے کہا کہ وزیراعظم نے علماء کرام سے کہا کہ حکومت نے کرونا وائرس وبا کی صورتحال کے پیش نظر مساجد کو کھولنے کا مشکل فیصلہ کیا ہے۔ 20 نکاتی لائحہ عمل پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے کہا کہ علمائے کرام نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ قرآن پاک کی اشاعت کے اداروں کو کھولنے میں نرمی، قرآن حکیم کی تعلیم بھی آن لائن کی جائے، وزیراعظم نے اس حوالے سے بھی بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے رمضان المبارک میں مساجد کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ڈاکٹر فردوس عاشق نے کہا کہ کرونا کا پھیلاؤ روکنے کیساتھ نظام زندگی کو بھی چلانا ہے۔ رمضان المبارک میں حکومت اور علماء کرام کے درمیان متفقہ اعلامیہ کی خلاف ورزی ہوئی تو کارروائی ہو گی، مدارس کے بچوں کیلئے بھی گھر بیٹھے تعلیم کا پروگرام لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ لاک ڈائون کے دوران جن علماء کرام، خطباء اور نمازیوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی رہائی کا پہلے ہی حکم دے چکا ہوں تاہم اگر اب بھی ایسا کوئی فرد گرفتار ہے تو اسے فوری رہا کیا جائے، وزیراعظم عمران خان نے مدارس کو بلاسود قرضوں کی فراہمی کیلئے وزارت خزانہ کو حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس، مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر مذہبی اداروں کیلئے یوٹیلٹی بلوں کو مؤخر کرنے کی تجویز کو بھی معاشی ٹیم کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے جو خطیب، مؤذن اور عملہ کے دیگر ارکان معاشی مشکلات کا شکار ہیں ان کو بھی دیگر طبقات کی طرح مالی امداد کی سہولت فراہم کرنے کیلئے طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں کرونا سے متعلق جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کرونا وائرس کی روک تھام اور معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں توازن قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کو تاجر برادری کی مشکلات کا مکمل ادراک ہے۔صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیرِاعظم کو بتایا کہ تیسری کھیپ میں چار سو آٹھ ہسپتالوں کو کرونا وائرس سے متعلق سامان بھجوایا گیا ہے جبکہ چوتھی کھیپ میں اس سامان کو دگنا کر دیا جائے گا۔دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے خود کو گھروں تک محدود رکھیں۔اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر نظم و ضبط کا خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا لوگ جتنا زیادہ نظم و ضبط رکھیں گے اتنا ہی حکومت کیلئے کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنا آسان ہوگا۔ وزیر اعظم نے ارکان قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ اپنے حلقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے خصوصا ماہ رمضان میں ریلیف فراہم کرنے میں متحرک کردار ادا کریں۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان سے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی۔ وفد میں چوہدری عاصم نذیر، نواب شیر وسیر، رضا نصراللہ اور خرم شہزاد شامل تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر بھی موجود تھے۔