علامہ اقبال کا 82 واں یوم وفات‘ کرونا کی تباہ کاریاں جاری
شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا 82واں یومِ وفات آج 21؍ اپریل کو سادگی سے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اسلامیانِ پاکستان اور کشمیری عوام کے علاوہ بھارت، ایران، افغانستان، ترکی،برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ممالک میں مقیم اقبال کے عقیدت مند انہیں کرونا کے باعث کسی تقاریب کے انعقاد کے بغیر ہدیۂ عقیدت و محبت پیش کرینگے اور مسلم اُمہ کے اتحاد و یگانگت کیلئے اقبال کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کرینگے۔ عقیدت مندانِ اقبال آج لاہور میں مزارِ اقبال پر ماضی کی طرح اجتماعی حاضری بھی نہیں دے سکیں گے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیئے کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم انکی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جس کے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامیانِ ہند کی پرجوش معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ علامہ اقبال بے شک لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے بھی انکے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنماء بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
کرونا کے باعث آج قومی و عالمی زندگی جمود کا شکار ہے۔ کرونا وائرس کی ویکسین ابھی تک نہیں بن سکی۔ پوری دنیا اسکے بے رحم پنجوں میں ہے۔ اس کا سردست تدارک محض احتیاط ہے۔ کرونا وائرس نے بڑی بڑی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی عالمی برادری سے ترقی پذیر ممالک کی مدد اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی اپیل پر ذمہ دارانہ رسپانس دیکھنے میں آیا جس کے بعد پاکستان اور کئی ممالک کے قرضوں میں نرمی اور کمی کی گئی جس سے معیشت میں بہتری آرہی ہے۔
کرونا وائرس سے عالمی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 62 ہزار سے بڑھ گئی جبکہ متاثرین 25 لاکھ کے قریب ہیں۔ پاکستان میں بھی کرونا سے جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تاہم مریضوں اور اموات کے جو خدشات تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان سے پاکستان کو محفوظ رکھا۔ آج بھی ضرورت اس وبا سے تباہی کو کم سے کم رکھنے کیلئے وسیع تر اتحاد و یگانگت کی ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاک فوج اور عدلیہ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس ایک ایشو پر یکجہت ہیں۔ سیاست دانوں کو بھی سیاسی سوچ سے بالاتر ہو کر باہم متحد ہونا چاہیے۔ ان نازک حالات میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش ہو رہی ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ کرونا سے نجات کیلئے سب کو باہم متحد ہونا ہوگا۔ دوسری طرف علماء مشائخ کی سوچ قابل تحسین ہے۔ وہ ریاست کے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ ایسا ہی دیگر تمام شعبوں اور ہر فرد سے تعاون کا متقاضی ہے۔
پوری دنیا کرونا وائرس سے نجات کیلئے ایک دوسرے کی مدد کررہی ہے مگر بھارت کے پاکستان کیخلاف معاندانہ رویے اور کشمیریوں کیخلاف بربریت اور بھارتی مسلمانوں کیخلاف تعصب میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایل او سی پر اسکی شرانگیزی معمول کے مطابق جاری ہے جبکہ مقبوضہ وادی میں نو ماہ ہونے کو ہیں‘ بدترین پابندیوں کا حامل کرفیو جاری ہے۔ بھارت نے پہلے متنازعہ شہریت بل لا کر مسلمانوں کیخلاف شیوسینا اور بجرنگ دل ذہنیت کا اظہار کیا ‘ اب مسلمانوں کو کرونا وائرس کا ذمہ دار قرار دیکر ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ متعصب ہندو ڈاکٹروں نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے انکار کردیاے حکومت کی طرف سے لاک ڈائون سے مشکلات اور خوراک کی کمی کا شکار مسلمانوں کی مدد نہیں کی جارہی ۔ مودی سرکار کرونا کیخلاف ناقص پالیسی سے توجہ ہٹانے کیلئے بھی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اس پر بھی عالمی برادری کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ خاموشی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی سے بڑی مشکل اور عظیم قربانیوں کے ساتھ نجات حاصل کی۔ کچھ قوتیں پھر سے پاکستان میں دہشت گردی کے کانٹے بکھیرنا چاہتی ہیں۔ ایسی قوتوں اور انکے گماشتوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ایسا ہماری فورسز اور ایجنسیاں کر بھی رہی ہیں۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے اپریشن کرتے ہوئے پانچ دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا۔ ادھر کراچی میں القاعدہ برصغیر کے چار مبینہ دہشت گردوں کو دھماکہ خیز مواد اور دستی بموں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ دہشت گردی کیخلاف بھی قوم کے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ہے۔
ہم نے بہرصورت اقبال کے تصور پاکستان کی روشنی میں قائد کے پاکستان کو انکی خواہش کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہے جس کیلئے آج وزیراعظم عمران خان فی الحقیقت اقبال کے شاہین کا کردار ادا کررہے ہیں اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ملک کو اقتصادی استحکام سے ہمکنار کرنے اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے آج ملک کی تمام سول حکومتی اور عسکری قیادتیں بھی ایک صفحے پر متحد اور مکمل یکسو ہیں۔ آج کا یوم اقبال ہم سے من حیث القوم دفاع وطن کیلئے کردار ادا کرنے کا متقاضی ہے جس کیلئے قومی یکجہتی کو مستحکم بنانا اور اسلامیانِ پاکستان کو فرقہ بندیوں میں تقسیم کرنے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے دشمن کے ایجنڈے کو ناکامی کا منہ دکھانا ضروری ہے۔ اس کیلئے ہمیں آج اپنے اندر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کی تڑپ پیدا کرنا ہوگی جو شاعر مشرق اور مصور پاکستان علامہ اقبال کا مطمحٔ نظر تھا۔