آج علامہ اقبال کی برسی ہے یہ دن ہم سے پوچھتا ہے علامہ صاحب کیا تھے؟ علامہ صاحب عشق رسول کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور سنت رسولؐآپ کا فلسفہ تھا لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے سنت رسولؐ کیا ہے؟ کیا یہ چند اچھی عادتوں کا نام ہے یا پھر یہ زندگی کا کوئی مفصل قرینہ اور سلیقہ ہے۔سنت محض چند اچھی عادتوں کا مجموعہ نہیں۔یہ اسلام کی طرح ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو کائنات کے آخری انسان تک کی رہنمائی کرتا ہے۔آپؐ کی حیات کیا تھی یہ تبلیغ اور اعلان نبوت سے پہلے صداقت اور امانت تھی آپ نے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے پہلے خود کو اس طرح صادق و امین بنایا تھا کہ ابو جہل اور ابو لہب جیسے لوگ بھی امانت اور صداقت کی گواہی دیتے تھے۔اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا دین کی دعوت دینے والے تمام لوگوں کو امین اور صادق ہونا چاہئے۔سنت کا دوسرا پہلو بے خوفی تھا آپؐ نے کفار کے درمیان کھڑے ہو کر اسلام کی دعوت دی تھی پتھر مارے جاتے تھے اوجڑی ڈال دی جاتی تھی‘اہل خانہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال تک بھوکا پیاسا بھی رکھا گیا‘ساتھیوں کو تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تھا لیکن ذات مبارکہ پر خوف کا سایہ تک نہیں پڑا۔ جرأت کا یہ عالم تھا کہ ابھی حجاز کے دشمنوں سے نبٹنے کیلئے مجاہد اور ہتھیار نہیں تھے لیکن وقت کی دونوں سپر پاور ز قیصر اور کسری کو خط لکھ دیئے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دے دی۔کیا ہم بھی آج اتنے ہی بے خوف ہیں؟کیا ہم حالیہ امریکی سفارتکار کو پاکستانی کو کچلنے پر سزا دے سکتے ہیں؟کیا ہم فلسطین پر مظالم پر اسرائیل کو سخت طریقے سے باز رکھ سکتے ہیں؟کیا ہم شام میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کو روک سکتے ہیں؟کیا روہنگیا مسلمانوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
سنت کا تیسرا پہلو دعا سے پہلے عمل تھا کل متاع 313 لوگ تھے‘ تلواریں بھی کم تھیں‘گھوڑے اور اونٹ بھی نہیں تھے‘ لشکر کیلئے خوراک کا بندوبست بھی نہیں تھا‘پانی بھی نہیں تھا‘مجاہدوں کے پائوں میں جوتے اور تن پر کپڑے بھی نہیں تھے‘یہ لوگ کمزور بھی تھے مگر ان لوگوں کو لے کر بدر میں آگئے ‘ انہیں دشمن کے سامنے صف آراء کیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا کی‘اللہ کو یہ ادا پسند آگئی او اس نے کمزور سی جماعت کو مضبوط دشمن پر فتح دے دی‘وصال مبارک تک عمل پہلے کیا اور دعا بعد میں مانگی‘بیج پہلے بویا اور اچھی فصل کی دعا بعد میں مانگی‘کیا ہم بھی یہی کر رہے ہیں؟کیا ہم عمل کے بعد دعا مانگتے ہیں یا پھر ہم بیج بوئے بغیر لہلہاتی فصلوں کیلئے دعا کرتے ہیں؟
سنت کا چوتھا پہلو علم تھا‘حضور ؐکا زیادہ تر وقت علم بانٹنے میں صرف ہوتا تھا‘اصحاب آپؐ سے علم ‘دانش اور عقل سیکھتے تھے‘علم دوستی کا یہ عالم تھاغزوہ بدر کے قیدیوں کو پیش کش فرمائی تم مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو ہم تمہیں رہا کردیں گے ‘مسجد نبوی میں صفہ کا چبوترہ بنوایا اور صحابہ کو اس چبوترے پر علم دینا شروع کردیا۔کیا ہم بھی علم کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں؟سنت کا پانچواں پہلو صفائی تھا‘حضورؐ دنیا کی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے صفائی کو ایمان کا حصہ ڈکلیئر کیا تھا‘ اصحاب ہوں یا اصحاب کے گھر‘گلیاں ‘بازار‘اصطبل اور نشست گاہیں کسی جگہ بو‘گندگی اور غلاظت دکھائی نہیں دیتی تھی۔کیا ہم صفائی کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں؟ کیا دنیا ہمیں صاف قوم سمجھتی ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ مسلمان ممالک گندگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا شہر گندگی اور بدبو کی مثال ہے۔
سنت کا ایک پہلو تجارت تھا‘حضورؐ نے خود بھی تجارت کی اور تجارت کو پسند بھی فرمایا‘مدینہ منورہ میں منڈیاں بھی لگتی تھیں اور میلے بھی اور دکانیں بھی تھیں مگر ان دکانوں پر کوئی کم تولتا تھا اور نہ ہی ملاوٹ کرتا تھا۔وصال سے قبل سود کے کاروبار پر بھی پابندی لگادی‘دودھ میں پانی ملانے کو بھی برا سمجھا جاتا تھا لیکن کیا پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ کیا اس ملک میں لوگوں کو پانی اور ہوا تک خالص مل رہی ہے؟کیا لوگوں کو خالص دوا ‘ سبزی‘آٹا‘ دالیں‘ چاول اور چینی دستیاب ہے؟نہیں افسوس نہیں۔اس ملک میں قرآن مجید تک جعلی اور غیر معیاری کاغذوں پر چھپتے ہیں اور تہجد گزار حکیم صاحب بھی مریضوں کو معجون میں سٹیرائڈز ملاکر کھلاتے ہیں۔ اناج منڈی کے 90% تاجر الحاج صاحبان اور شوگر ملوں کے زیادہ تر مالکان رمضان المبارک کا پورا مہینہ حرم شریف میں گزارتے ہیں لیکن عوام کو چینی میسر نہیں ہوتی‘ آٹے اور دالوں میں زہر ملاکر بیچا جاتا ہے۔ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا ہم سنت رسولؐ پر اسی طرح سے عمل پیرا رہیں گے؟
سنت کے یہ خاص پہلو تھے‘ سنت کے ہزاروں‘ لاکھوں پہلو ہیں اور ہم اگر پوری زندگی ان پہلوئوں کا ذکر کرتے رہیں تب بھی ان کا مکمل احاطہ ممکن نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف ان سات پہلوئوں پر عمل کر رہے ہیں‘ سنت کا کوئی ایسا پہلو ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں؟ چنانچہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں لیکن اسلام ہم سے لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے پر ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فاصلہ بڑھتا چلاجارہا ہے۔ ہم نبیؐ کی زیارت تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے کسی حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اور یہی آج علامہ اقبال کی برسی کا پیغام ہے کہ حضرت بلالؓ کی روح پیدا کریں صرف ان کے حلیہ سے ہی کامیابی نہیں مل سکتی۔
علامہ اقبالؒ کی زندگی بھی سنت رسولؐ پر عمل اور اسلام کے بنیادی اصولوں کا عملی ثبوت تھا۔ ان کی زندگی کے بھی اس قدر پہلو ہیں کہ ان پر ریسرچ جاری ہے اور نئے نئے مقالہ جات سے ان کی شاعری‘ نظریات اور شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہوتے چلے جاتے ہیں اور انکی امت مسلمہ کے لئے فکرمندی اور شعور اس قدر وسیع ہے کہ ان کے اشعار سے آج کے حالات کا احاطہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کا شاہین بننے کے لئے ضروری ہے کہ سنت رسولؐ پر عمل کریں اور سیدھے راستے پر ہمیشہ کاربند رہ کر دین و وطن کی سربلندی کو اولین ترجیح رکھیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38