وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض وزراء کی جانب سے مخالفت کے باعث تاحال ’’ایمنسٹی سکیم منظوری نہیں ہو سکی۔ وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر نہ صرف وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ کئی وزراء کے محکمے تبدیل کر کے انہیں ’’غیر اہم‘‘ محکموں میں ’’کھڈے لائن‘‘ لگا دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے بعد اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور نے پریس کانفرنس میں ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ بارے میں تفصیلات کا اعلان کرنا تھا لیکن وفاقی کابینہ سے ’’ایمنسٹی سکیم ‘‘ کی منظوری نہ ملنے پر ان کی پریس کانفرنس منسوخ کر دی گئی ۔ وزراء دو حصوں میںتقسیم ہو گئے اور اکثریت نے ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کی ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض وزراء نے کہا کہ کل تک ہم ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کرتے رہے آج ہم کس منہ سے عوام کے سامنے ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ کی حمایت کریں گے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض وزراء وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر سے ایمنسٹی سکیم کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کے تخمینہ کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو یاد دلایا کہ پی ٹی آئی ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کرتی رہی ہے اگر ہم نے اس کی منظوری دے دی تو عوام کو کیاجواب دیں گے؟وزیراعظم عمران خان نے بھی ایمنسٹی سکیم کو پارٹی منشور کے خلاف قرار دیا اور کہاکہ اگر یہ سکیم لانی ناگزیر ہے تو قوم کو صورت حال کے بارے میں اعتماد میں لینا ہو گا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو گھنٹے تک بحث جاری رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ دوسرے روز بھی وفاقی کا بینہ کے اجلاس میں ایمنسٹی سکیم کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اب ایمنسٹی سکیم پر وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں غور کیا جائے گا ۔ وفاقی کابینہ کے دوسرے اجلاس میں بھی وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسد عمر ایمنسٹی سکیم کے بارے میں تحفظات دور نہ کر سکے بیشتر ارکان نے ایمنسٹی سکیم کی شدو مد سے مخالفت کر کے اسد عمر کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ ایمنسٹی سکیم پر کابینہ ارکان کا اختلاف برقرار رہا۔ کابینہ ارکان نے کہا موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال میں کوئی سکیم کامیاب نہیں ہو سکے گی لہٰذا ایمنسٹی سکیم کی بجائے ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈائون شروع کرنے پر زور دیا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان نے تجویز پیش کی کہ وزیراعظم عمران خان قوم سے خطاب کر کے ایمنسٹی سکیم پر اعتماد میں لیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر نے کہا کہ اصلاحات پر وقت لگتا ہے یہ بات سب کو سمجھنی چاہیے۔ وفاقی کابینہ کے دوسرے اجلاس میں بھی ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ کی منظوری نہ ملنے پر ’’دل برداشتہ‘‘ ہو گئے۔ اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے اسد عمر کو خزانہ و اقتصادی امور کی وزارت واپس لے کر توانائی کی وزارت دینے کی پیشکش کی تو انہوں نے یہ وزارت قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ اسد عمر کی وزارت سے فراغت کے بعد کئی اور وزراء کے قلمدان بھی تبدیل کر دئیے گئے۔ وفاقی کابینہ میں آٹھ ماہ بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے ردوبدل کے بارے میں ٹیم کے ’’کپتان‘‘ نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ ’’میچ‘‘ جیتنے کے لئے بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ کپتان کا مقصد ٹیم کو صرف میچ جتوانا ہوتا ہے، کپتان کو ہر وقت ٹیم پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور ایک کھلاڑی کو نکال کر نئے کھلاڑی کو میدان میں لانا ہوتا ہے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ہی روز میں جہاں 5، 6 وزارتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کی وہیں انھوں نے اپنی نئی میڈیا اور فنانس ٹیم لانچ کر دی ہے۔ ’’کپتان‘‘ نے 8 ماہ بعد ہی اپنی ٹیم تبدیل کر کے دراصل اپنی ’’ناکامی‘‘ کا اعتراف کر لیا ہے۔ اب ملک کی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سارا ملبہ اسد عمر پر ڈال دیا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسد عمر کی وزارت خزانہ سے چھٹی 2 اہم وجوہات معاشی پالیسیوں میں ناکامی اور پارٹی میں سیاسی گروپنگ کی بناء پر ہوئی ہے، اگرچہ جہانگیر ترین سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں رکھتے مگر پارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی اور حکومت میں ہونے والی تمام تبدیلیوں میں ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں سے پہلے ان کی وزیراعظم عمران خان سے اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں وفاقی کابینہ کے نئے خدوخال وضع کئے گئے اور انھوں نے ہی وزیراعظم کو وزیرخزانہ کی تبدیلی کا مشورہ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم جہانگیر ترین کے مشوروں کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ بگڑتی معاشی صورتحال سے ملکی سلامتی کے معاملات متاثر ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہورہا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ہفتے قبل ہونے والی 2 بڑوں کی ملاقات میں کابینہ میں اہم تبدیلیوں کا معاملہ زیر غور آیا تھا۔ اسد عمر کو شیڈول دورہ امریکہ کے دوران نہیں ہٹایا گیا لیکن جوں ہی ان کی وطن واپسی ہوئی، ان سے وزارت خزانہ کا ’’اعزاز‘‘ واپس لے لیا گیا۔ اسد عمر نے تو وزارت چھوڑنے سے قبل پریس کانفرنس میں اپنے مستعفیٰ ہونے کی سب سے پہلے خبر دے دی تھی، انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے وزارت خزانہ چھوڑنے کا کہا تو میں نے فوراً نہ صرف وزارت خزانہ چھوڑ دی بلکہ توانائی کی وزارت لینے سے بھی معذرت کر لی۔ وزیراعظم کے بعد وزارت خزانہ کا قلمدان مشکل ترین ہے، اگلے وزیر خزانہ کو مشکلات ہوں گی، عوام دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی توقع نہ کریں، آئندہ بجٹ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت بنے گا۔ میرے کپتان نے کہا کہ میں آپ کو وزارت توانائی میں دیکھنا چاہتا ہوں، میں نے ان سے کابینہ کا حصہ نہ بننے کی اجازت لے لی ہے۔ شنید ہے کہ گیس کی قیمتوں میں سلیب کے تحت اضافہ حکومت پر تنقید کی وجہ بنا ،وزیرخزانہ اسد عمر بھی اس تجویز کے بانی تھے ، اس ضمن میں ان کی غلام سرور خان سے تلخ کلامی بھی ہوئی ہے ۔ غلام سرور کا مؤقف تھا کہ یہ قیمتیں بتدریج بڑھائی جائیں تاہم اسد عمر کا مؤقف تھا کہ خسارہ پورا
کرنے کیلئے فوری طور پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے ۔ گیس کی قیمتوں کے بڑھنے کے باعث بلوں کی قیمتوں میں 4سے6گنا تک اضافہ ہوگیا۔ ادویات کی اچانک 300 سے 400 فیصد قیمتوں میں اضافہ وزیرصحت عامر کیانی کو عہدے سے ہٹائے جانے کی وجہ بنی ۔ عامر کیانی عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں ،عمران خان نے 2018کے انتخابات میں انہیں خصوصی طور پر راولپنڈی کے اہم علاقے کینٹ کے حلقے سے ٹکٹ بھی دیا لیکن ان کی وزارت کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اچانک ہوشربا اضافے سے وزارت کی کارکردگی کھل کر سامنے آگئی ، اس معاملے میں وزارت کی نااہلی اور بدعنوانی کی رپورٹس بھی سامنے آئیں ، جس کے باعث انہوں نے عامر کیانی کو عہدے سے ہٹا دیا لیکن اس سے پہلے عامر کیانی کے پاس بہت بڑا عہدہ تھا اور وہ پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے صدر بھی تھے۔ ناقص کارکردگی پر وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، اور وزراء سے استعفے لئے جانے سے وفاقی حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے قیام کے تقریباً آٹھ ماہ بعد تمام وزراء کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جس میں ناقص کارکردگی کے حامل وزراء کو یا تو فارغ کر دیا گیا یا ان کے قلمدان تبدیل کر دیئے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری جن کو ’’شریف و زرداری خاندان ایکسپرٹ‘‘ کے طور پر شہرت حاصل ہو گئی، کا وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان تبدیل کر کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کو وفاقی وزرات ہوا بازی، بریگیڈئر (ر) اعجاز احمد شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ جبکہ وفاقی وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے سیفران بنا دیا گیا ، محمد میاں سومرو سے شہری آبادی کا قلمدان واپس لے کر ان کے پاس وفاقی وزارت نجکاری کا قلمدان رہنے دیا گیا ہے۔ اعظم سواتی جنہیں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے، انہیں ایک بار پھر وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے، انہیں پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کا مشیر برائے خزانہ بنا دیا گیا۔ وہ قبل ازیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی وزارت خزانہ سنبھال چکے ہیں۔ ڈاکٹر ظفراللہ مرزا کو وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے ہیلتھ سروس ،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات اور نعیم بابر کو پٹرولیم ڈویژن کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ اسد عمر کو پارٹی کے اندر جہاں خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہاں ان کی ناتجربہ کاری نے بھی ان کی وزارت خزانہ سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا، ان کو وزارت خزانہ سے ہٹائے جانے کی خبریں تو کافی عرصہ سے گردش کر رہی تھیںِ، مقتدر حلقوں میں بھی ان کی پالیسیوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ان کی جگہ ڈاکٹرحفیظ شیخ نے لی ہے جو ماضی میں بھی مقتدر حلقوں کے بڑے قریب تصور کئے جاتے ہیں تھے وہ پی پی پی اور مشرف دور میں وزیر رہے، وہ پی پی پی کے سینیٹر بھی رہے اور حکومت کی میعاد ختم ہونے سے چند ماہ قبل مستعفی ہوئے تھے، پی ٹی آئی ان پر قرضوں میں اضافہ کا الزام عائد کرتی رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے ان کی وزارت میں پی ٹی آئی ملک کے قرضوں میں کس قدر اضافہ کرتی ہے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024