وزیراعظم عمران خان کا ریاست مدینہ کا تصور درحقیقت اقبال و قائد کا تصور پاکستان ہے
یوم اقبال پر ملک کی سالمیت کے تحفظ کے تقاضے نبھانے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کے عہد کی ضرورت
شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا 81واں یومِ وفات آج 21؍ اپریل کو عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اسلامیانِ پاکستان اور کشمیری عوام کے علاوہ بھارت، ایران، افغانستان، ترکی،برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ممالک میں مقیم اقبال کے عقیدت مند انہیں مختلف تقاریب کے ذریعے ہدیۂ عقیدت و محبت پیش کرینگے اور مسلم اُمہ کے اتحاد و یگانگت کیلئے اقبال کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کرینگے۔ عقیدت مندانِ اقبال آج لاہور میں مزارِ اقبال پر حاضری دیکر انکی روح کو ایصالِ ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرینگے اور ملک کی سلامتی، ترقی‘ خوشحالی‘ جمہوریت کے استحکام اور دہشت گردی کے ناسور سے نجات کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں گے۔ علامہ اقبال کے یومِ وفات پر آج مزارِ اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی پُروقار تقریب بھی منعقد ہو گی جبکہ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں آج نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام یومِ اقبال کی ایک خصوصی تقریب بھی منعقد ہو گی ۔ مرحوم مجید نظامی ہر سال ایسی تقریبات کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ آج کے یوم اقبال کے موقع پر بھی انکی کمی شدت سے محسوس کی جائیگی۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیئے کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم انکی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جن کے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامیانِ ہند کی پرجوش معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ علامہ اقبال بے شک لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعے بھی انکے جذبات متحرک رکھتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی‘ نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنماء بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعوے دار سیاسی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا اور نہ ان سے اتحاد و ملت کی کوئی تدبیر بن پائی جبکہ مسلم لیگ کے جن قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے آزاد اور خود مختار مملکت میں بھی مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر نہ ہو پائی اور نہ ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد اگر مسلم لیگی قائدین فہم و تدبر سے کام لیتے‘ پارٹی کے جھنڈے تلے یکسو اور متحد رہتے اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ اصولوں کو حرزِ جاں بنائے رکھتے تو اسلامیانِ پاکستان کیلئے اپنی خوشی‘ خوشحالی اور جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور والی طمانیت کا سفر کبھی کھوٹا نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے طالع آزما جرنیلوں نے جمہوریت کا تصور پختہ ہونے دیا اور نہ ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو پنپنے دیا جبکہ مسلم لیگی قیادتوں نے حصوں بخروں میں منقسم ہو کر خالص مسلم لیگی حکومت کی تشکیل بھی ممکن نہ ہونے دی اور دو قومی نظریے پر یقین نہ رکھنے والے عناصر کو بھی کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔آج کے پاکستان کا قائد و اقبال کے تصورات و فرمودات کی روشنی میں قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس کیلئے وزیراعظم عمران خان میں امید کی کرن نظر آتی ہے جنہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کے تصور پاکستان کے عین مطابق اس مملکت خداداد کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے ریاست مدینہ کا تصور اجاگر کیا اور وہ اس ارض وطن کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کیلئے ہی کرپشن کے ناسور کے تدارک کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح پی ٹی آئی حکومت کا مطمعٔ نظر بنا چکے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ اپنی حکومتی ٹیم میں بھی ایسے لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں جو ریاست مدینہ کی منزل قریب لانے میں معاون بن سکتے ہوں۔
ہم آج کا یوم اقبال اسی تناظر میں ملک کی سلامتی اور جمہوریت کے استحکام کے جذبے کے ساتھ منا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اقبال و قائد کے پاکستان میں جہاں حکمران اشرافیہ طبقات نے قیام پاکستان کے مقاصد کے قطعی برعکس استحصالی نظام کو فروغ دے کر عوام الناس کو پاکستان اور جمہوریت کے ثمرات سے محروم کیا ‘‘ وہیں سیاسی محاذآرائی کو فروغ دیکر ماورائے آئین اقدام والوں کی جمہوریت کی بساط الٹانے کی سوچ کو بھی تقویت پہنچائی جاتی رہی۔ اگرچہ مشرف کی جرنیلی آمریت کیخلاف وکلاء اور سول سوسائٹی کی عدلیہ بحالی تحریک کے دوران عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے کیس میں انہیں بحال کرنے کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے جرنیلی آمریتوں کو تحفظ دینے والے نظریۂ ضرورت کو عدالت کے احاطہ میں دفن کرنے کا بھی اعلان کیا تھا جس کے بعد اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی اور اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر طے پانے والے میثاق جمہوریت کے تحت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں نے کسی جمہوری حکومت کی بساط الٹانے کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنا کندھا پیش نہ کرنے کے عزم کو سنبھالے رکھا چنانچہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے جمہوری حکمرانوں اور ان سے وابستہ اشرافیہ طبقات کے اللے تللوں‘ قومی خزانے کی لوٹ مار اور کرپشن کی داستانوں کے باوجود اب تک جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر چلتی جمہوریت کے استحکام کی منزل کی جانب گامزن نظر آرہی ہے تاہم حکومت اور اپوزیشن میں آج جس انداز میں سیاسی محاذآرائی کی فضا گرم ہوتی نظر آرہی ہے‘ وہ اقبال و قائد کے پاکستان میں سہمی‘ ڈری جمہوریت کے پھر سے راندۂ درگاہ ہونے کی نوبت لا سکتی ہے۔ چنانچہ آج کے یوم اقبال کے موقع پر جمہوریت کے تحفظ کیلئے زیادہ فکرمندی کا اظہار ہونا چاہیے۔ اگر اقبال و قائد کے پاکستان کے استحکام اور حکمران اشرافیہ طبقات کے استحصال کا شکار عوام کی خوشحالی اور فلاح و بہبود مقصود ہے تو یہ جمہوریت کی عملداری میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بول بالا سے ہی ممکن ہے جبکہ جمہوریت کی عملداری میں آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور ریاستی آئینی اداروں کے اپنی آئینی حدود و قیود میں رہ کر فرائض سرانجام دینے سے ہی پختہ ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں اقبال کے تصور پاکستان کی روشنی میں بانیٔ پاکستان کے متعین کردہ مقاصد پاکستان کو پیش نظر رکھ کر تعمیر واستحکام پاکستان کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔
ہم نے بہرصورت اقبال کے تصور پاکستان کی روشنی میں قائد کے پاکستان کو انکی خواہش کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہے جس کیلئے آج وزیراعظم عمران خان فی الحقیقت اقبال کے شاہین کا کردار ادا کررہے ہیں اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ ملک کو اقتصادی استحکام سے ہمکنار کرنے اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے آج ملک کی تمام سول حکومتی اور عسکری قیادتیں بھی ایک صفحے پر متحد اور مکمل یکسو ہیں چنانچہ ملک کے ازلی دشمن بھارت کی ہر سازش اور اسکے ہر جارحانہ اقدام کا فوری اور مسکت جواب دیا جارہا ہے اور پاکستان دشمنی کا ماحول گرما کر لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے مودی سرکار کے عزائم اسی بنیاد پر ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں جسے جنگی جنوں بھڑکانے پر بھارت کے اندر سے بھی سخت ردعمل کا سامنا ہے۔ آج کا یوم اقبال ہم سے من حیث القوم دفاع وطن کیلئے کردار ادا کرنے کا متقاضی ہے جس کیلئے قومی یکجہتی کو مستحکم بنانا اور اسلامیانِ پاکستان کو فرقہ بندیوں میں تقسیم کرکے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے دشمن کے ایجنڈے کو ناکامی کا منہ دکھانا ضروری ہے۔ اس کیلئے ہمیں آج اپنے اندر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کی تڑپ پیدا کرنا ہوگی جو شاعر مشرق اور مصور پاکستان علامہ اقبال کا مطمعٔ نظر تھا۔