شاعرِ مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا کلام بلاشبہ حدود و قیود سے ماورا ہے۔ آپ نے اپنے کلام کے ذریعے خوابِ غفلت میں مدہوش مسلم امہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کو نہ صرف جھنجھوڑا بلکہ اس قوم اور امہ کی رہتی دنیا تک رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ اس بطلِ جلیل، مفکر اسلام اور مفسرِ قرآن علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے گم کردۂ راہ اور منزل ناآشنا مسلمانوں کو نہ صرف منزل سے آشنا کیا بلکہ منزل تک پہنچنے کا راستہ بھی شرح صدر کے ساتھ بیان کیا۔ انہیں ان کے تابناک ماضی سے روشناس کرایا اور روشن مستقبل اور نشاۃ ثانیہ کی ایک واضح تصویر بھی پیش کی۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی جدوجہد اور نصب العین کے حصول کیلئے واضح رہنمائی کی اور اک ولولۂ تازہ کے لئے کہا :
اٹھ کہ خورشید کا سامانِ تازہ کریں
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کریں
بالآخر آپ کی رہنمائی سے مسلمانوں کے لئے ایک وطن کا حصول ممکن ہوا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا آفاقی کلام ہمیشہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام کے لئے ہمیشہ قرآن سے رہنمائی لی ہے۔ قرآن سے رہنمائی کے حوالے سے علامہ اقبال اپنے کلام میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کرتے ہیں:
روزِ محشر خوار و رسوا کن مر
بے نصیب ازبوسۂ پاکن مر
گر درِ اسرارِ قرآن سفتہ ام
بامسلماناں اگر حق گفتہ ام
مجھے قیامت میں خوار اور رسوا کیا جائے اور اپنی پابوسی سے محروم کر دیا جائے،اگر میں قرآن کے علاوہ کچھ اور کہوں تو مجھے ختم کر دیا جائے اور قوم کو میرے شر سے محفوط رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنی بڑی گزارش اقبال جیسا مردِ قلندر ہی کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال کے قرآن مجید سے تعلق استوار ہونے کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی نے دو واقعات علامہ اقبال کی زبانی اس طرح بیان کئے ہیں کہ:
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم اپنے اوراد و وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھ کو دیکھ کر گزر جاتے۔ ایک دن صبح کو وہ میرے پاس سے گزرے تو مسکرا کر فرمایا: ’’کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتائوں گا‘‘۔میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا:’’جب امتحان دے لو گے، تب‘‘۔ جب امتحان دے چکا اور لاہور سے گھر آیا تو فرمایا: ’’جب پاس ہو جائو گے‘‘۔جب پاس ہو گیا اور پوچھا تو فرمایا: ’’بتائوں گا‘‘۔ ایک دن صبح کو حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آگئے اور فرمایا:’’بیٹا، کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اتر رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے‘‘۔ ڈاکٹر اقبال کہتے تھے کہ ان کا یہ فقرہ میرے دل میں اتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔ یہ تھا وہ تخم جو اقبال کے دل میں بویا گیا اور جس کی تن آور شاخیں پہنائے عالم میں ان کے (موزوں نالوں) کلام کی شکل میں پھیلی ہیں۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ باپ نے ایک دن بیٹے سے کہا کہ:’’میں نے تمہارے پڑھانے میں جو محنت کی ہے تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں‘‘۔لائق بیٹے نے بڑے شوق سے پوچھا کہ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ باپ نے کہا: کسی موقع پر بتائوں گا‘‘۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ’’میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا‘‘۔ بات ختم ہو گئی۔
ڈاکٹر اقبال کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے لاہور میں کام شروع کیا۔ ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا اور نوجوانوں نے اس کو اسلام کا ترانہ بنایا۔ لوگوں نے نظموں کو ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا، اور سامعین میں ولولہ پیدا ہونے لگا۔ انہی دنوں میں میرے والد مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ میں ان کو دیکھنے کے لئے لاہور سے آیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ والد بزرگوار، آپ سے جو میں نے اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا وہ پورا کیا یا نہیں؟ باپ نے بسترِ مرگ پر شہادت دی کہ ’’جانِ من، تم نے میری محنت کا معاضہ ادا کر دیا‘‘۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ اقبال نے ساری عمر جو پیغام ہم کو سنایا وہ انہی دو متنوں کی شرح تھی۔
بلاشبہ اقبال نے اپنی بیشتر شاعری کو مسلمانوں کیلئے قرآن کی تعلیمات سے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا اور اپنے پراثر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے بڑے احسن اور دلنشین انداز میں روشناس کروایا۔ اقبال نے قرآن کے آفاقی پیغام کو ہوبہو اپنے شعروں کے قالب میں ڈھال کر من و عن اسی طرح بیان کر دیا۔ قرآنی پیغام پر مبنی شاعری نے نہ صرف عام مسلمانوں میں جذبۂ ایمانی کی نئی روح پھونک دی بلکہ قرآنی تعلیمات کے بیان نے ان کی شاعری میں ایک ایسی لازوال شادابی و آفاقیت پیدا کر دی کہ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا یہ کلام تروتازہ و شاداب ہے ۔ درج ذیل چند اشعار علامہ اقبال کی جانب سے قرآنی آیات کو نثری پیرائے سے ہوبہو شعری اسلوب میںڈھال کربیان کرنے کی عکاسی کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کیلئے مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہانوں کے لئے ہدایت‘‘ (آل عمران آیت 96) ۔ علامہ اقبال یہی بات اپنے کلام میں اس طرح کہتے ہیں:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
قرآن پاک فرماتا ہے:’’کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے‘‘ (النساء آیت 82) ۔ علامہ اقبال اسی پیغام کو اپنے شعر کی صورت میں یوں بیان کرتے ہیں:
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اللہ بدلتا ہے رات اور دن۔ اس میں بے شک عبرت ہے آنکھ والوں کے لئے‘‘ (سورۂ نور آیت 44) علامہ اقبال اپنے کلام میںیوں کہتے ہیں:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لئے تنگ زندگانی ہے ‘‘ (سورۂ طہٰ آیت 124) ۔ علامہ اقبال اس پیغام کو یوں واضح کرتے ہیں:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تھی، تم نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی‘‘(سورۂ الانفال آیت 17) ۔ علامہ اقبال اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو‘ زباں تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
قرآن مجید فرقان حمید میں ہے :’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا‘‘ (آل عمران آیت 102)۔ علامہ اقبال اس کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
ارشاد ربانی ہے: ’’اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہیں بنایا‘‘ (آل عمران آیت 191)۔
ارشاد ربانی ہے: ’’تو کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا (المومنون آیت 24) ۔ علامہ اقبال اسے یوں بیان کرتے ہیں:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
یہ علامہ اقبال کے کلام کی چند مثالیں ہیں۔ درحقیقت علامہ اقبال کے سارے کلام کا مآخذ قرآن مجید ہے۔ اقبال کی شخصیت کی تعمیر اور تعلیم و تربیت میں ان کے والدین کے علاوہ ان کے مثالی استاد سید میر حسن اور ایک مسلم دوست عالم اور منصف مزاج مستشرق پروفیسر آرنلڈ (T.W.Arnold) کا انتہائی نمایاں حصہ ہے۔ علامہ اقبال کے کلام کے اس پہلو پر سب سے بڑا تحقیقی کام ڈاکٹر غلام مصطفٰے خانؒ نے کیا۔ اقبال اکادمی پاکستان نے ’’اقبال اور قرآن‘‘ کے عنوان سے ان کی اس کاوش کو 1977ء میں شائع کیاجسے پہلے قومی صدارتی اقبال ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
علامہ اقبال کا کلام ہمیشہ مسلم امہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ من حیث القوم ہمیں علامہ اقبال کے کلام کو حرزِ جان بنانا چاہئے اور نئی نسل کو ان کے کلام اور پیغام سے روشناس کروانا چاہئے تاکہ اقوام عالم میں ہم ایک ممتاز مقام حاصل کر سکیں۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ شجاعت کا‘ عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024