علامہ اقبالؒ کا خطبہ الٰہ آباد ....تحریک پاکستان کا اہم سنگ میل
علامہ اقبالؒ اپنے فلسفہ اور فکر کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہے۔ مسلمانوں نے اُن کی علمی وسعت کا احترام کرتے ہوئے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ سیشن الٰہ آباد1930ءکی صدارت کی دعوت دی۔ علامہ اقبالؒ نے اس دوران جو خطبہ ¿ صدارت دیا اس میں نہایت فاضلانہ انداز سے ہند کے مسلمانوں کے سماجی، سیاسی، مذہبی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لیا، مسائل کا حل تلاش کرنے اور مسلمانوں کو معاشرہ میں اونچا مقام دلانے کے لئے ایک خاکہ پیش کیا کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو ملا کر ایک مسلم ہندوستان کی تشکیل کی جائے۔
علامہ اقبالؒ کا فلسفہ آفاقی تھا اور سیاست میں گہری سوچ پر مبنی تھا۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو خودی‘ اتحاد اُمت اور خدمت انسانیت کا درس دیا۔انہوں نے اتحاد اُمت اور اس کی رہنمائی کےلئے نصب العین تیار کیا اور مسلم ریاست کا قیام ہندوستان میں ناگزیر قرار دیا۔
خطبہ الٰہ آباد میں آپ نے منفرد ریاست کا تصور پیش کیا کہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی والے علاقوں کو یکجا کیا جائے۔ اس میں ایک روحانی قسم کی جمہوریت کا آغاز ہوگا جہاں اقلیت کو حقوق میسر آئیں گے اور ملک کا آئین اسلامی ہوگا۔ آپ نے اُمت مسلمہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا کہ مسلمانوں کو زوال کیسے آیا اور کس طرح ہم سرخرو ہو سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے علامہ اقبالؒ قرارداد لاہور کے پاس ہونے سے دو سال قبل وفات پا گئے۔ مگر آپ نے راستہ”پاکستان‘ کو اُمت مسلمہ کو 30دسمبر1930ءمیں دکھایا اور قائداعظم محمد علی جناحؒکو خطوط تحریر کر کے لندن سے بلوایا۔
علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں فرمایا:-
”برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں۔ مسلمان ہر لحاظ سے ایک جدا قوم ہیں۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے جس میں بے شمار انسانی گروہ آباد ہیں۔ اُن کے مسائل، ان کے مفادات کے مطابق حل ہونے چاہئیں ہندوستان کےلئے برطانیہ کا پارلیمانی نظام غیر موزوں ہے۔ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں جو باہمی تعاون کے لئے تیار نہیںہیں کیونکہ ہر قوم کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ثقافت کے مطابق ترقی کرے۔ مسلم ہندوستان کا تصور ایک ایسا شاندار تصور ہے کہ جس کی رو سے اسلام کے ماننے والے آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے۔ “ گویا خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کا واحد طریقہ بتایا گیا۔ علامہ اقبالؒ نے ایک مثبت حل مسلمانوں کےلئے پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک اسلام اور مسلم قومیت ، ابدی صداقت کا نام ہے اور وہ مسلمانوں کو ایک مرکز پر اکٹھا دیکھنا چاہتے تھے ۔اُن کے نزدیک مسلمان اپنے مرکز سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ علامہ اقبالؒ سمجھتے تھے کہ مسلمان قوم کو دنیا کی امامت کرنی ہے جس کےلئے صداقت، عدالت اور شجاعت ضروری ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے خواہش مند تھے۔ وہ مسلم قوم کو آزاد دیکھنا اور ظلم و ستم کے تمام آثار سے نجات دلوانا چاہتے تھے۔
علامہ اقبالؒ کا ایمان پختہ تھا کہ مسلمان قوم میں ساری صلا حیتیں موجود ہیں۔ اُن کا مستقبل روشن ہوگا۔ علامہ اقبالؒ نے اسی سوچ کو آگے بڑھا یا کہ اس قوم کو ایک معمار کی ضرورت ہے جس میں خودی جیسے اوصاف ہوں اور عملی زندگی میں صداقت، انصاف، ذہانت، قابلیت، بے باکی اور اپنے خیالات کے اظہار میں بے خوفی کا عنصر ہو۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے تمام زعماءپر نگاہ ڈالی ۔ آخر کار ان کی نگاہ قائداعظمؒ پر پڑی کہ یہ شخص اصولوں پر سودا کرنے والا نہیں ۔ یہ مسلمانوں کی سربلندی کےلئے موزوں ترین شخص ہے۔ انہوں نے قائداعظمؒ میں عزم، حوصلہ اور راہنمائی کے اوصاف دیکھے کہ یہ شخص قوم کو فریب نہیں دے سکتا اور اس کےلئے بہتر رہبر ہو سکتا ہے۔
ا س سے قبل قائداعظمؒ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کے بارے میں ہندوﺅں کا تعصب دیکھا تو وہ صرف مسلمانوں کی بہتری کےلے کام کرنے لگے تاہم چندامور کی وجہ سے وہ لندن چلے گئے۔ 1927ءمیں قائداعظمؒ نے اپنے مشہور زمانہ14نکات پیش کئے جہوں نے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ 1927ءمیں مرکزی اسمبلی میں بحث کا سیشن ہو رہا تھا۔ قائداعظمؒ اس سیشن کےلئے دہلی میں مقیم تھے ۔20مارچ1927ءکو دہلی میں مسلمان سیاستدانوں کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں مولانا محمد علی جوہر، سر محمد شفیع، ڈاکٹر انصاری، مفتی کفایت اللہ، راجہ صاحب آف محمود آباد اور سر علی امام شامل تھے۔ کانفرنس میں قائداعظمؒ نے مولانا محمد علی جوہر کے مشورے سے چودہ نکات پیش کئے۔ مسلمانوں نے قائداعظم کے چودہ نکات تو منظور کرلئے مگر ہندو مہاسبھا عنصر ان نکات کے خلاف ہو گیااور مسٹر گاندھی کے اشارہ پر سخت مخالفت شروع ہو گئی اور قائداعظمؒ کے چودہ نکات مسترد کر دیئے گئے۔
موتی لال نہرو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو نہرو رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔
نہرو رپورٹ کی اشاعت برصغیر میں ایک نئے ہنگامے کا موجب ثابت ہوئی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس رپورٹ کو بحیثیت مجموعی پذیرائی نصیب نہ ہوسکی۔ خود ہندوﺅں میں ایک ایسا گروہ موجود تھا جو اسے اپنی قوم کےلئے مضر رساں سمجھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہرو کمیٹی کے بعض مسلمان ممبروں کے دباﺅ میں آکر اور کچھ مسلمانوں کو خوش کرنے کےلئے نہرو رپورٹ میں بعض ایسے مطالبات بھی شامل کر لئے گئے تھے جن سے مسلمانوں کی قدرے اشک شوئی ہو جاتی تھی لیکن بحیثیت مجموعی یہ رپورٹ مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھی مگر متعصب ہندوﺅں کو مسلمانو ں کےلئے یہ برائے نام رعایت بھی منظور نہ تھی۔ چنانچہ مہا سبھائی ہندوﺅں نے اس رپورٹ کی کھل کر مخالفت کی ۔ادھر مسلمانوں میں دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ اُسے قطعی طور پر مسترد کررہا تھا اور دوسرا اس میں مناسب رد و بدل کے بعد اُسے قبول کرنے پر آمادہ تھا۔ اس گروہ میں قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے نام سر فہرست ہیں۔ چنانچہ جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو اگست1928ءمیں علامہ اقبالؒ نے‘ جو شفیع مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے‘ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”رپورٹ مرتب کرنے والے حضرات نے اپنے دلائل میں فرض کر لیا ہے کہ پنجاب اور بنگال کی مختلف اقوام اپنی اپنی قوم کے نمائندوں کے حق میں رائے دیں گی۔ اس قیاس کی بناءپر پنجاب کے مسلمانوں کو یقین دلایا گیا کہ کونسل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔ اگر ایسا ہی ہے تو جداگانہ طریق انتخاب کو کیوں منظور نہیں کیا جاتا یا کم از کم نشستوں کی تخصیص کیوں نہیں کی جاتی۔
علامہ اقبالؒ نے خالص قسم کا نظریہ مسلم ہندوستان کا پیش کیا۔ نہرو رپورٹ پر آپ نے تبصرہ کیا۔ چودہ نکات اور راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس دونوں میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کے حل تلاش کئے گئے تھے اور سندھ بلوچستان، پنجاب اور سرحد کو ملا کر ایک آزاد ریاست کا نقشہ کھینچا گیا۔ ان علاقوں کو ہندوستان کے باقی علاقوں سے الگ کرنے کی تجویز، مسلمانوں کے مسائل کے حل کا واحد طریقہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اس وقت پیش کیا گیا جب مسلمان سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے ہندوﺅں سے بہت پیچھے تھے۔ گویا ایک اسلامی ریاست کا تصور یا نقشہ علامہ اقبالؒ نے اپنے صدارتی خطبہ میں اس انداز سے وقت پیش کیا کہ اس خطبہ کے اندر اتنا خلوص اور جذبہ، مسلمانوں سے حقیقی محبت اور اُن کی زندگیاں سنوارنے کا ایمان افروز روشن خیال تھا جوبعد میں شمال مغربی ہندکے مسلمانوں کا مقدر ہوا۔
علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلام ایک تمدن ، ایک قوت کے طور پر قائم ہو جائے۔ جہاں مسلمان پھیلیں ‘ پھولیں اور ترقی کریں۔ وہ اسلام کو تمدنی طاقت خیال کرتے تھے اور اسے ایک مضبوط قوت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے گویا خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کےلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔