افکار اقبال پر عمل ” لمحہ موجود کی اولین ضرورت“
قارئین! آج مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کا یوم رحلت ہے مگر یہ کوئی عام دن نہیں ہے نہ ہی 21اپریل کوئی عام تاریخ بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں دو ایسی تاریخیں بھی موجود ہیں جن کی تاریخی اہمیت بجائے خود وطن عزیز کے وجود سے بھی بڑھ کر ہے ایک وہ تاریخ ساز تاریخ یعنی 9 نومبر جس روز علامہ اقبال نے اسی جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی اور دوسری وہ تاریخ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو اتنا شدید روحانی دھچکا لگا کہ ایسے نازک موقع پر اگر قائداعظم آگے بڑھ کر مصور پاکستان کے تصور کو تصویر کا رنگ دیتے ہوئے پاکستان کو تعمیر نہ کر دیتے تو وہ من حیث القوم کبھی بھی عالم اسلام میں وہ اہمیت حاصل نہ کر پاتے جو کہ لمحہ موجود میں انہیں میسر ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اقبال آج بھی اپنے افکار عالی کے آفاقی پیغام کی صورت میں ہمارے درمیان زندہ وجاوید موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان کے تمام تر فلسفے کو نوجوان نسل کے رگ وپے میں اتار دیا جائے اقبال شناسی کو قوم کے لیے آکسیجن کی طرح ناگزیر قرار دیا جائے کیونکہ ہمارے پاس صرف یہی نسخہ کیمیا ہے جو اقوام عالم میں ہمیں حیات ابدی عطا کر سکتا ہے ہم سر اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ اقبال ہمارا ہے، خالد و قاسم ہمارے قائداعظم اور محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان ہمارے ہیں۔ اقبال صرف ہمارے قومی شاعر یا مصور پاکستان ہی نہ تھے وہ ایک عظیم فلسفی، بلند پایہ مفکر، اعلیٰ درجہ کے درویش صفت انسان اور باعمل صوفی تھے ان کا پیغام خودی وخود شناسی ہو، فلسفہ فقر وغنا ہو، یا عالمگیر انسانیت کا عالمگیر نظریہ ہو، ان کے اشعار کی ہر ہر سطر کا ہر ہر نقطہ ہمارے لیے بقا کا پیغام ہے انہوں نے عشق رسول کی روشنی میں بندہ مومن کی جو صفات مرتب کیں وہ ان سے نوک برابر بھی ادھر ادھر ہونے کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی الہامی شاعری کے ذریعے ہندوو¿ں اور انگریزوں کی دوہری غلامی سے نجات دلانے کے لیے ابھارا ان کا ہر شعراکسیر، ان کی ہر سوچ امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اسم اعظم اور ہر قول، قول زریں ثابت ہوا۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے مسلمانوں کے جذبات اور جذبوں کو مسلسل متلاطم رکھنا ان کا دوسرا بڑا معجزہ کلام تھا یہاں تک کہ ان کا خواب حقیقت کا روپ دھار گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لمحہ موجود میں جس طرح مسلمان دنیا بھر میں مغربی استعماریت سے پنجہ آزما ہیں خاص طور پر کشمیری مسلمانوں پر جس طرح مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں یا ملک بھر میں کرپشن، بے ایمانی، دوغلا پن، معاشی نا انصافیاں، اسلامی نظام کو کھوکھلا کر رہی ہیں اس کا علاج کیا ہے؟
ہمارے نزدیک اس کا واحد حل اور حتمی علاج صرف اور صرف اقبال شناسی میں ہے لیکن اقبال شناسی اس طرح ہرگز ممکن نہیں ہے کہ نصاب کی کتابوں میں ان کی ایک نظم ایک غزل یا شکوہ
جواب شکوہ کے چند بند شامل کر لیے جائیں بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ماہرین اقبال کی کمیٹیاں بنا کر ان کے ذریعے ابتدائی کلاسوں سے لے کر ایم اے تک نصاب میں ”اقبال شناسی“ کو بطورِ لازمی مضمون شامل کرایا جائے ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اقبال ہر عمر اور ہر دور کے ہر انسان کی ہر سوچ پر پورا اترتا ہے۔ صرف اقبال کا دن منا لینے یا تقاریر کر لینے سے قوم ان کے افکار پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی بلکہ انہوں نے اپنی نوجوان نسل کو شاہین کی مانند آسمانوں میں اپنا شکار خود ڈھونڈنے اور خود کسی کا شکار نہ بن جانے کا جو فلسفہ دیا ہے وہی ان کی حتمی کامیابی کی ضمانت اور ان کی روشن منزل کا تعین ہے۔ اپنی کشتِ ویراں سے ہرگز نا امید نہیں تھے۔ وہ اپنی مٹی کے پرنم ہونے پر اس کی زرخیزی کی نوید سناتے ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے لیکن اقبال کا مہِ کامل بننے کے بجائے آج کی نئی نسل جس طرح بے روزگاری، مایوسی اور سماجی کرپشن کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح بکھر گئی ہے۔ اس کو فکری عروج و ارتقاءعطا کرنے اور ہر لمحہ عملی جدوجہد میں مصروف رہنے کے فلسفے پر عمل پیرا کرنے کے لئے ”اقبال شناسی“ کی طرف ان کو لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے یوں اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہی دراصل علامہ اقبال کو ان کے رحلت پر خراج عقیدت پیش کرنے کی صحیح عملی صورت ہے۔!!!