ایک فکری شخصیت کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینا کوئی آسان بات نہ تھی لیکن جنوبی ایشیاءکے حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ اقبالؒ جیسے مفکر کو بہ امر مجبوری سیاست میں حصہ لینا پڑا۔ یہ بات انکے مزاج اور فطرت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی تھی۔ علامہ اقبالؒ کی ابتدائی شاعری پر بھی قوم پرستی غالب تھی تاہم علامہ اقبالؒ نے کانگریس میں شمولیت اختیار نہ کی حالانکہ اس وقت کانگریس وجود میں آچکی تھی۔ 1906ءمیں جب مسلم لیگ وجود میں آئی اس وقت علامہ اقبالؒ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اس لیے وہ لندن میں قائم مسلم لیگ کی برٹش برانچ کے رکن بن گئے۔ علامہ اقبالؒ 1908ءمیں برصغیر میں واپس آئے۔ 1909ءمیں مسلمانوں کا علیحدہ نیا بت کامطالبہ تسلیم کیا جاچکا تھا۔ اس سال علامہ اقبالؒ کو آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کیا گیا جس کے جواب میں علامہ اقبالؒ نے خط میں لکھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستان میں اس بات کا امکان ہے کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے ہوکر ایک قوم بن سکیں‘ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کو علیحدہ علیحدہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ دراصل انہیں اس امر کا احساس ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔ علامہ اقبالؒ تو لکھنو پیکٹ کے حق میں بھی نہ تھے کیونکہ اس سے ہندو مسلم اتحاد کا تو چرچا ہوا مگر مسلمانوں نے اپنی سیاسی طاقت گنوا دی تھی۔ بعدازاں ثابت ہوا کہ یہ پیکٹ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ تھا۔ علامہ اقبالؒ اس مقصد کے تحت عملی سیاست میں آئے کہ اس پیکٹ کو ختم کروایا جائے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا خسارہ تھا۔ ہندوﺅں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ جو مسلمان مسلم اکثریتی صوبوں میں سیاسی قوت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس سے آخر کار کہیں مسلمان اکثریتی صوبے انکے ہاتھ سے نکل نہ جائیں اس لیے 1924ءہی سے ہندوﺅں کا رویہ معاندانہ تھا۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں ہندوﺅں نے ہندو مہاسبھا بنائی جس کی داغ بیل لاہور میں لالہ لاجپت رائے نے ڈالی۔ یہ ہندوﺅں کی مذہبی جماعت ثابت ہوئی اور بعدازاں اسکے بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے 1924ءکے بعد عملی سیاست میں حصہ لیا اور اپنے طور پر پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور تین چار سال تک رکن رہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ ایسے شخص نہیں تھے جو عملی سیاست میں حصہ لے سکتے۔ ان کی بنیاد نظریاتی تھی۔ علامہ اقبالؒ علیحدہ نیا بت کے اصول کو مسلمانوں کے لیے ایک آئینی تحفظ سمجھتے تھے۔ قائداعظمؒ اور انکے ساتھیوں نے اس معاملے پر کانگریس اور ہندو مہاسبھا سے مذاکرات کیے مگر کامیابی نہ ہوئی کیونکہ کانگریس مسلمانوں کے مطالبات ماننے پر آمادہ ہی نہ تھی۔ جب قائداعظمؒ کانگریس سے مطالبات تسلیم نہ کرواسکے تو کچھ عرصہ کے لیے بٹ جانے والی مسلم لیگ پھر سے متحد ہوگئی۔ 1930ءمیں علامہ اقبالؒ مسلم لیگ کے متفقہ طور پر صدر مقرر ہوگئے۔ 1930ءمیں حضرت علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ اقبالؒ چونکہ بنیادی طور پر ایک بیرسٹر تھے لہٰذا ان کا اندازِ فکر بھی وکیلوں جیسا تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے اس خطبے میں جس اہم ترین نکتے کو بیان کیا‘ وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا وفد چودہ مطالبات لے کر لندن گیا ہے۔ اگر ان مطالبات کو منظور نہ کیا گیا تو میں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کو ملاکر ایک علیحدہ مملکت قائم کی جائے اور مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایسا ہونا مسلمانوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے اس خطبے پر ہندو پریس چیخ اٹھا اور الزامات کی بھرمار کردی۔ کانگریس رہنما ڈاکٹر مونجے نے انتہائی سخت بیان میں کہا کہ ہم ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششیں کررہے ہیں اور یہ شخص ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ ریمزے میکڈانلڈ نے بھی علامہ اقبالؒ کے بارے میں خاصے برے ریمارکس دیے۔ اس موقع پر سر محمد شفیع نے ان کا دفاع کیا اور ان کے مطالبے کو حق بجانب قرار دیا۔ قائداعظمؒ نے اس صورتحال پر کوئی تبصرہ نہ فرمایا۔ غالباً قائداعظمؒ اپنی جگہ علامہ اقبالؒ کو اس لیے صدر بناکر گئے تھے کہ آپ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اور آزاد مملکت کا تصور پیش کردیں۔ جب یہ چودہ نکات منظور نہ کیے گئے تو قائداعظمؒ بہت مایوس ہوگئے اور کہا کہ اب وہ ہندوستان واپس جانے کی بجائے لندن میں رہ کر ہی پریوی کونسل میں وکالت کریں گے۔ اس صورتحال میں علامہ اقبالؒ نے ہی قائداعظمؒ کو قائل کیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر ایک نئے پروگرام کے تحت مسلمانوں کی رہنمائی کریں کیونکہ علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اس عظیم فریضے کے لیے موزوں خیال نہ کرتے تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ مسلم لیگ کو ایک عوامی سیاسی جماعت بنایا جائے جو مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کرے۔ 1934ءمیں قائداعظمؒ نے واپس تشریف لاکر مسلم لیگ کی از سرنو تنظیم کی اور اس سلسلے میں مختلف صوبوں کا دورہ کیا۔ 1940ءمیں لاہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔ یومِ اقبالؒ کی تقریب میں قائداعظمؒ نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ اگر آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو ہم ان سے کہتے کہ آپ جیسا چاہتے تھے‘ ویسا ہی ہم نے کردیا ہے۔ ایک بار قائداعظمؒ نے فرمایا کہ اگر مجھے انتخاب کا موقع دیا جائے کہ میں اقبالؒ کی شاعری اور فکر کو قبول کروں یا پاکستان کو تو میں علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری اور فکر کو پاکستان پر ترجیح دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظمؒ علامہ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور انہوں نے علامہ اقبالؒ کو اپنا دوست اور گائیڈ قرار دیا تھا۔ حضرت قائداعظمؒ کے وصال کے بعد مسلم لیگ کی قیادت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ علامہ اقبالؒ نے بطور ایک سیاسی رہنما کے مسلم لیگ کی سیاست میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ یہ فیصلہ تو اب ہماری قوم اور تاریخ نے کرنا ہے کہ اگر انہوں نے کسی قسم کا کردار ادا کیا تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی اور اگر وہ کوئی مثبت کردار نہیں تھا تو وہ کس کی فکر تھی جس کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا۔ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کی تجاویز کافی عرصے سے موجود تھیں مگر علامہ اقبالؒ کی پیش کردہ سکیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہ پہلی مرتبہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے دی گئی اور مسلم لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے یہ پاکستان حاصل کیا گیا جو اقبالؒ کی نگاہ میں تھا۔ لہٰذا اگر اقبالؒ کو فلسفی اور مفکر پاکستان سے بڑھ کر عملی سیاست دان کے طور پر آئینی اور نظریاتی خالق بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024