لاہور (سید شعیب الدین ) 3 برس تک پنجاب میں حکومتی ٹرین کے مزے لوٹنے والی پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ان فٹ قرار دینے سے قبل یہ ضرور سوچ لینا چاہئے تھا کہ کیا خادم اعلیٰ کے بعد صوبے کا نظم ونسق فیصل آباد کے رانا ثنا اللہ یا راجہ ریاض کو سونپ دیا جائے۔ ذمہ دار حلقوں کے مطابق گزشتہ برس سیلاب سے تقریباً نصف پنجاب کے بُری طرح متاثر ہونے کے بعد صوبے کو پاﺅں پر کھڑا کرنے، گورننس کا معیار بہتر بنانے اور عام آدمی کے حالات بہتر کرنے کے لئے خادم اعلیٰ پنجاب جس جذبے سے دن رات مصروف رہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ اپوزیشن لیڈر کی طبیعت گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ جیسی ہے۔ کبھی جیالے بن کر مسلم لیگ (ن) اور پنجاب حکومت کو مطعون کرتے ہیں تو اگلے ہی دن پنجاب میں سب اچھا کا راگ الاپ لگتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی نے اب اپوزیشن کا کردار سنبھالا ہے تو الزامات کی بجائے ایشوز کی بنیاد پر سیاست کرے۔ فرمائش کرکے بلٹ پروف لینڈ کروزر لینے والے سابق سینئر وزیر عوام کو بتا سکیں گے کہ وفاقی دارالحکومت کے علاقہ اور باقی 3 صوبوں میں جہاں پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے کیا دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔کیا وفاق میں ہر کام سیدھے، سچے اور قانونی راستے سے ہو رہا ہے۔ راجہ ریاض پنجاب میں شہباز شریف پر اعتراض کر رہے ہیں کیا وہ جواب دینا پسند کریں گے کہ وفاق میں ان کی جماعت نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے بقول کامل علی آغا ”چودھری پرویزالٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش کی ہے“۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ اقتدار بچانے کے لئے اس جماعت سے شراکت اقتدار کی جا رہی ہے جسے قاتل لیگ کہہ کر اب تک پکارا جاتا رہا۔ راجہ ریاض نے مسلم لیگ ن کو ایک شہر کی جماعت قرار دیا ہے مگر کیا چاروں صوبوں کی واحد نمائندہ کہلانے والی پیپلز پارٹی نے ایک سے زائد بار سندھ کارڈ استعمال کرکے یہ واضح نہیں کر دیا کہ وہ اب علاقائی یا صوبائی جماعت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پیپلز پارٹی کا قومی تشخص بھی شاید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ہے۔
تبصرہ
تبصرہ