پیرِ رومی کے چمنستانِ فکر میں جو پھول کانٹوں کے جھرمٹ میں کھلے اور عطربیز ہوئے، ان سے علامہ محمد اقبالؒ نے نہ صرف اپنے مشام جاں کو معطر کیا بلکہ خود ایک الگ جنتِ فکر و آگہی بھی تعمیر کر لیا۔ اقبال کے دل و دماغ میں جو فکر و فن خوابیدہ تھا اسے آوازہ عشق نے بیدار کیا۔ دانائے سبل عقلِ کل کی بارگاہ میں جانے کے لئے دبستانِ رومی سے اپنے باطن میں موجود طوفانوں کو اٹھایا، مہمیز کیا تاآنکہ بتانِ وہم و گماں، رشتہ و پیوند، مال و دولتِ دنیا سب کو خس و خاشاک کی طرح اڑا لے گیا۔ حقائق کا شہر اس غبار کے نیچے سے نمایاں ہو گیا پھر بابِ علم پر دستک دے کر مدینہ علم کی گلی کوچوں میں اس طرح سے خرام کیا کہ وجودِ اقبال کے سارے گڑھے رنگ و نور سے معمور ہو گئے۔ عشق مصطفیٰﷺ کو اپنا سرمایہ حیات بنا لیا۔ آنکھوں میں طیبہ کی دھول کا سرمہ لگا لیا۔ سارے طبق روشن ہو گئے دیدہ و بینا وا ہوا۔ چشمِ بصارت چندھیا گئی اور اقبال کو مدینہ منورہ میں پاکستان آباد دکھائی دے گیا۔ یہ ایک جھلک رقص شرد کی سی تھی لیکن کچھ بھی تو اوجھل نہ رہا اور ایک لمحہ بے نام بقا کی رداءمیں لپٹا ہوا صدیوں قرنوں کی وسعتیں دے گیا۔ مریدِ ہندی نے پیر رومی سے ابتدا میں جو مصافحہ کیا تھا وہ پہلا سنگِ منزل تھا۔ پھر وہ اپنی روشنی میں متنیر ہونے کی منزل سے گزر کر منیر ہوا اور منصبِ رشد پر اس شان سے جادہ پیما ہوا کہ سفر کا طے ہونا منزل ٹھہرا اور اس طرح ہر گام پر منزل انپے شمار سے باہر پہلو دکھاتی چلی گئی۔ خدا جانے اس ایک منزل نے کتنی منازل اپنے اندر سمو رکھی تھیں۔ اقبالؒ اقلیمِ امی لقب میں داخل ہو گیا تھا اور روایتی علم کے سارے وسیلوں سے کہنے لگا
ماہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
اِلا حدیثِ یارکہ تکرار می کنم
(میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھلا دیا بجز گفتہ یار کہ زمان و مکان سے ورا ہو کر اسی کی تکرار میں لگا ہوں)
اور یہ بھی کہ اقبال جب رومی کے تصرف کی بدولت بہت آگے اپنے پاﺅں پر بہت آگے سدرہ فکر و نظر سے بھی آگے نکل گیا اور تنہا اس آفتاب الوہیت کی بارگاہِ حقیقت پناہ میں پہنچا تو اس سروروانِ باغِ الہٰ سے سوائے اس کے کچھ عرض گزار نہ سکا
بالا بلند عشوہ گرِ سروِ نازِ من
کوتاہ کرد قصہ زہد درازِ من
(اس بالا بلند کشیدہ قامت، عشوہ گر اور میرے سروِ ناز نے اپنے دیدار کی جلوہ نمائی سے میرے زہد طویل کے لمبے قصے کو یکسر مختصر کر دیا)۔ شاید یہی وہ وادی حیرت تھی جس میں گم ہو کر اقبال نے سراغ زندگی پا لیا اور ہمیں بھی کہہ گیا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
دنیا کے نقشے پر جو ایک تصورِ رعنا وہ باندھ گئے وہ پاکستان کے روپ میں مٹائے نہیں مٹ رہا اب شاید اس کی نشاة ثانیہ کا موسم آ گیا ہے۔ دیکھتے رہیں کہ ملک کس کس ملک میں رونمائی کرتا ہے اور اس کی سرحدیں کیسے اس چھوٹی سی دنیا کو اپنی مضبوط بانہوں میں لے کر یہ حقیقت واضح کرتی ہیں کہ اس گنبدِ مینائی تلے سارا پاکستان ہی تو ہے، یہ پاکیزگی کا چمن جو لوگ حکمرانوں کے لبادے میں نجس کر رہے ہیں ان کے احتساب کا سبب خود افزونی شر بنے گا اور شر کی یہ بہتات حق کو اتنا بلند قامت بنا دے گی کہ باطل قوتیں اس کو اپنی تمام تر ذہنی و سائنسی صلاحیتوں کے باوجود سر نہ کر سکیں گی۔ اقبال فہمی ہی یزداں فہمی اور قوتِ الوہی تک رسائی پانے کا وسیلہ ہے۔ باطل قوتیں نہایت مدبر ہیں لیکن تدبر کا شہنشاہ ادنیٰ سی تدبیر کے ساتھ اس کی خاک اڑا دے گا۔ وہ دیکھ رہا ہے مگر ہم نہیں دیکھ رہے البتہ اقبال کی نگاہِ رسا استعمال کرنے سے اس کی نظر کے زاوئیے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ اقبال کو پیر رومی نے عشقِ رسول میں ڈبو کر ایک ایسی نظر اور فکر عطا کر دی ہے کہ گردوں جس کی زد میں ہے۔ عشق مصطفوی ہی سے شرر بولہبی کو بجھا کر نیست کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے اقبالؒ نے فقیہان حرم سے کہہ دیا تھا کہ
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام لہبیت
(خود کو بارگاہ مصطفوی میں پہنچا دو کہ وہی سراپا دین ہیں اگر ان کی ذات اقدس تک نہ پہنچے تو باقی سب بولہبی و گمراہی ہے)
فکر اقبال ایک درسگاہ ہے جس میں بال و پر پانے والے ایک شاہین نے وطنیت کے بت کو اوندھے منہ گرا کر بظاہر ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ وہ مردِ شاہیں صفت کون تھا؟ اور کس کا مرغِِ دست آموز تھا۔ یہ جاننے کے لئے اقبال کی آفاقیت میں گم ہونا لازم ہے۔ وگرنہ بتوں سے امیدیں اور خدا سے ناامیدی کی یہ سرخ آندھی اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک ارض پاک کرہ ارضی نہیں بن جاتی۔
ماہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
اِلا حدیثِ یارکہ تکرار می کنم
(میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھلا دیا بجز گفتہ یار کہ زمان و مکان سے ورا ہو کر اسی کی تکرار میں لگا ہوں)
اور یہ بھی کہ اقبال جب رومی کے تصرف کی بدولت بہت آگے اپنے پاﺅں پر بہت آگے سدرہ فکر و نظر سے بھی آگے نکل گیا اور تنہا اس آفتاب الوہیت کی بارگاہِ حقیقت پناہ میں پہنچا تو اس سروروانِ باغِ الہٰ سے سوائے اس کے کچھ عرض گزار نہ سکا
بالا بلند عشوہ گرِ سروِ نازِ من
کوتاہ کرد قصہ زہد درازِ من
(اس بالا بلند کشیدہ قامت، عشوہ گر اور میرے سروِ ناز نے اپنے دیدار کی جلوہ نمائی سے میرے زہد طویل کے لمبے قصے کو یکسر مختصر کر دیا)۔ شاید یہی وہ وادی حیرت تھی جس میں گم ہو کر اقبال نے سراغ زندگی پا لیا اور ہمیں بھی کہہ گیا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
دنیا کے نقشے پر جو ایک تصورِ رعنا وہ باندھ گئے وہ پاکستان کے روپ میں مٹائے نہیں مٹ رہا اب شاید اس کی نشاة ثانیہ کا موسم آ گیا ہے۔ دیکھتے رہیں کہ ملک کس کس ملک میں رونمائی کرتا ہے اور اس کی سرحدیں کیسے اس چھوٹی سی دنیا کو اپنی مضبوط بانہوں میں لے کر یہ حقیقت واضح کرتی ہیں کہ اس گنبدِ مینائی تلے سارا پاکستان ہی تو ہے، یہ پاکیزگی کا چمن جو لوگ حکمرانوں کے لبادے میں نجس کر رہے ہیں ان کے احتساب کا سبب خود افزونی شر بنے گا اور شر کی یہ بہتات حق کو اتنا بلند قامت بنا دے گی کہ باطل قوتیں اس کو اپنی تمام تر ذہنی و سائنسی صلاحیتوں کے باوجود سر نہ کر سکیں گی۔ اقبال فہمی ہی یزداں فہمی اور قوتِ الوہی تک رسائی پانے کا وسیلہ ہے۔ باطل قوتیں نہایت مدبر ہیں لیکن تدبر کا شہنشاہ ادنیٰ سی تدبیر کے ساتھ اس کی خاک اڑا دے گا۔ وہ دیکھ رہا ہے مگر ہم نہیں دیکھ رہے البتہ اقبال کی نگاہِ رسا استعمال کرنے سے اس کی نظر کے زاوئیے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ اقبال کو پیر رومی نے عشقِ رسول میں ڈبو کر ایک ایسی نظر اور فکر عطا کر دی ہے کہ گردوں جس کی زد میں ہے۔ عشق مصطفوی ہی سے شرر بولہبی کو بجھا کر نیست کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے اقبالؒ نے فقیہان حرم سے کہہ دیا تھا کہ
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام لہبیت
(خود کو بارگاہ مصطفوی میں پہنچا دو کہ وہی سراپا دین ہیں اگر ان کی ذات اقدس تک نہ پہنچے تو باقی سب بولہبی و گمراہی ہے)
فکر اقبال ایک درسگاہ ہے جس میں بال و پر پانے والے ایک شاہین نے وطنیت کے بت کو اوندھے منہ گرا کر بظاہر ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ وہ مردِ شاہیں صفت کون تھا؟ اور کس کا مرغِِ دست آموز تھا۔ یہ جاننے کے لئے اقبال کی آفاقیت میں گم ہونا لازم ہے۔ وگرنہ بتوں سے امیدیں اور خدا سے ناامیدی کی یہ سرخ آندھی اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک ارض پاک کرہ ارضی نہیں بن جاتی۔