سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشی‘ معاشرتی بحرانوںاور غیروں کی غلامی سے نکلنے کیلئے وطن عزیز میں اقبال ؒ کے تصورات کے نفاذ کی ضرورت
پاکستان اور کشمیر سمیت آج پورے عالم اسلام میں مصورِ پاکستان‘ مفکر ملت اور آفاقی و فلسفی شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا 73واں یوم وفات نہایت عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ حضرتِ علامہ کی شاعری‘ فلسفے اور پند نصائح کو صرف برصغیر تک محدود نہیں رکھا جا سکتا‘ انکی پوری دنیا پر نظر تھی۔ انہوں نے مسلم امہ کو آزادی‘ خودداری کا پیغام دیا۔ اس دور میں جدید مغربی نظریات میں بڑی کشش تھی‘ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو غیروں کے نظریات اور اسلامی تصورات سے مرعوب ہونے کے بجائے‘ اپنے مذہب‘ کلچر‘ فلسفے اور روایات سے پختہ وابستگی کے ذریعے نشاة ثانیہ کی راہ دکھائی۔ وہ مغرب کی درس گاہوں سے تعلیم یافتہ تھے‘ کافی عرصہ دیار غیر میں گزارہ‘ عموماً مشرق سے گئے لوگ مغرب کی چکاچوند اور رنگ و روشنیوں میں کھو کر اپنی تہذیب سے کہیں دور چلے جاتے ہیں‘ مگر علامہ اقبال پر مغربی تہذیب نے اثر ڈالا‘ نہ انکی جدت انہیں متاثر کر سکی۔
علامہ اقبالؒ نے 1930ءکے خطبہ الہ آباد میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کی واضح سمت کا تعین کر دیا تھا‘ مسلمانوں کیلئے منزل کی نشاندہی تو ان کا احسان عظیم تھا ہی‘ اس سے بڑھ کر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں کو تمام تر طوفانوں سے نمٹے والے اور منزلِ مقصود تک پہنچانے والے رہبر و رہنماءسے بھی روشناس کرایا جس میں رہنمائی کے وہ تمام اوصاف موجود تھے‘ جو کسی قوم کے قائد میں ہونے چاہئیں ....
نگہ بلند‘ سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کیلئے
برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کیلئے حضرت قائداعظم محمدعلی جناحؒ علامہ اقبالؒ کا حسنِ انتخاب تھے‘جو نگہ بلند‘ سخن دلنواز اور جاں پرسوز کے ساتھ ساتھ نہ جھکنے اور نہ بکنے کا شہرہ رکھتے تھے۔ خدائے وحدہ لاشریک نے علامہ کے خواب کو قائد کے توسط سے تعبیر دی اور 14 اگست 1947ءکو ریاست مدینہ کے بعدپہلی اسلامی نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر ابھری لیکن افسوس اس وقت علامہ اقبالؒ کو دنیا سے پردہ کئے ہوئے 9 برس ہو چکے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ بہت بڑی بدقسمتی تھی کہ قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد قائداعظم بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اقبالؒ اور قائدؒ کو اگر پانچ سات سال اس نوزائیدہ ریاست کے امور چلانے کا موقع مل جاتا تو یقیناً آج پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اقبالؒ کی تعلیمات اور پُرجوش ملی شاعری سے جذبہ اور عزم حاصل کرنےوالی قوم نے صرف سات سال کی مختصر مدت میں انگریز اور ہندو کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود الگ مسلم ریاست تو حاصل کر لی مگر قائداعظم ؒ کی وفات‘ انکے قریبی ساتھیوں کےخلاف سول و فوجی بیورو کریسی کی سازشوں اور بالآخر 1958ءمیں مارشل لاءکے نفاذ کی وجہ سے نوزائیدہ ریاست میں اقبالؒ کے نظریات اور قائداعظمؒ کے تصورات کے مطابق ایک حقیقی اور جدید اسلامی جمہوری پارلیمانی‘ فلاحی نظام کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکی جس کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد اُمید اور عالم اسلام کی بازوئے شمشیر زن یہ مملکت بانیانِ پاکستان کے عزائم بالخصوص اقبالؒ کے ترقی پسندانہ اسلامی نظریات کےمطابق دنیا کےلئے اسلام کی تجربہ گاہ نہ بن سکی۔ یہاں کبھی ننگی فوجی آمریت نے صدارتی اور شورائی نظام کا تجربہ کیا اور کبھی اسلامی سوشلزم اور مساواتِ محمدی کے نام پر سوشلزم کو آزمانے کی کوشش کی گئی‘ توازنِ اختیارات کے نام پر صدارتی اور شخصی حکمرانی کا ایک ایسا آمرانہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق تھا اور نہ جمہوریت سے دور پار کا واسطہ۔ یوں اقبالؒ نے نوزائیدہ مملکت کو عہدِ حاضر میں ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ آج تک شرمندہ تعمیر نہ ہو سکا۔
یہ افسوس کا مقام ہے کہ اقبالؒ کے نظریات اور قائدؒ کے تصورات سے مسلسل انحراف کا نتیجہ ایک ایسے احساسِ محرومی‘ سیاسی بدنظمی اور اپنے مستقبل سے بے یقینی کی صورت میں نکلا جس کا فائدہ ان طبقوں نے اُٹھایا جو اسلام‘ جمہوریت‘ وفاق اور اقتصادی و معاشی معاملات کے حوالے سے انتہائی تنگ نظر‘ کنفیوژ اور عہدِ جدید کے تقاضوں سے بے خبر تھے‘ اس پر مستزاد ہمارے حکمرانوں کا غیروں بالخصوص امریکہ پر انحصار ہے جس نے عوام میں شدید غصہ اور اشتعال پیدا کیا۔ آج امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستان خود بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ ڈرون حملوں سے نہ صرف معصوم پاکستانیوں کی لاشیں گر رہی ہیں‘ بلکہ اس نے پاکستان کے وقار‘ خودداری اور خودمختاری کو بھی تار تار کر دیا ہے اور عملاً ہم امریکہ کے غلام یا امریکی کالونی بن چکے ہیں۔ انہی حملوں کے انتقام میں خودکش بمبار پاکستان کے کونے کونے میں دھماکے کر رہے ہیں‘ ملکی معیشت انحطاط پذیر ہے‘ ملکی امور چلانے کیلئے ٹیکسوں میں اندھا دھند اضافہ کیا جا رہا ہے اور خودانحصاری کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے قرض پر قرض لیا جا رہا ہے‘ جو قرض دینے والوں کے اپنے مفاد میں ہے۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ مزید قرض کیلئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر جا بیٹھے ہیں‘ جس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے مزید شرائط رکھ دی ہیں۔ بھارتی مداخلت سے بلوچستان جل رہا ہے‘ مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔
موجودہ سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشی اور معاشرتی بحرانوں سے نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان‘ حکمران‘ مذہبی رہنما اور قومی ادارے اقبالؒ کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنا کر ملک کا قبلہ درست کریں‘ خودی اور خود داری کی جو تعلیم اقبالؒ نے دی اس پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ حکمران قومی وسائل کو امانت و دیانت کے جذبے سے عوام کی فلاح و بہبود کےلئے استعمال کریں ۔پاکستان کو اقبالؒ و قائدؒ کی خواہش کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کے مطابق واقعی جدید اسلامی جمہوری پارلیمانی فلاحی ریاست بنایا جائے۔ یہی اقبالؒ اور فکرِ اقبال سے وابستگی کا حقیقی تقاضا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے 1930ءکے خطبہ الہ آباد میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کی واضح سمت کا تعین کر دیا تھا‘ مسلمانوں کیلئے منزل کی نشاندہی تو ان کا احسان عظیم تھا ہی‘ اس سے بڑھ کر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں کو تمام تر طوفانوں سے نمٹے والے اور منزلِ مقصود تک پہنچانے والے رہبر و رہنماءسے بھی روشناس کرایا جس میں رہنمائی کے وہ تمام اوصاف موجود تھے‘ جو کسی قوم کے قائد میں ہونے چاہئیں ....
نگہ بلند‘ سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کیلئے
برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کیلئے حضرت قائداعظم محمدعلی جناحؒ علامہ اقبالؒ کا حسنِ انتخاب تھے‘جو نگہ بلند‘ سخن دلنواز اور جاں پرسوز کے ساتھ ساتھ نہ جھکنے اور نہ بکنے کا شہرہ رکھتے تھے۔ خدائے وحدہ لاشریک نے علامہ کے خواب کو قائد کے توسط سے تعبیر دی اور 14 اگست 1947ءکو ریاست مدینہ کے بعدپہلی اسلامی نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر ابھری لیکن افسوس اس وقت علامہ اقبالؒ کو دنیا سے پردہ کئے ہوئے 9 برس ہو چکے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ بہت بڑی بدقسمتی تھی کہ قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد قائداعظم بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اقبالؒ اور قائدؒ کو اگر پانچ سات سال اس نوزائیدہ ریاست کے امور چلانے کا موقع مل جاتا تو یقیناً آج پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اقبالؒ کی تعلیمات اور پُرجوش ملی شاعری سے جذبہ اور عزم حاصل کرنےوالی قوم نے صرف سات سال کی مختصر مدت میں انگریز اور ہندو کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود الگ مسلم ریاست تو حاصل کر لی مگر قائداعظم ؒ کی وفات‘ انکے قریبی ساتھیوں کےخلاف سول و فوجی بیورو کریسی کی سازشوں اور بالآخر 1958ءمیں مارشل لاءکے نفاذ کی وجہ سے نوزائیدہ ریاست میں اقبالؒ کے نظریات اور قائداعظمؒ کے تصورات کے مطابق ایک حقیقی اور جدید اسلامی جمہوری پارلیمانی‘ فلاحی نظام کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکی جس کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد اُمید اور عالم اسلام کی بازوئے شمشیر زن یہ مملکت بانیانِ پاکستان کے عزائم بالخصوص اقبالؒ کے ترقی پسندانہ اسلامی نظریات کےمطابق دنیا کےلئے اسلام کی تجربہ گاہ نہ بن سکی۔ یہاں کبھی ننگی فوجی آمریت نے صدارتی اور شورائی نظام کا تجربہ کیا اور کبھی اسلامی سوشلزم اور مساواتِ محمدی کے نام پر سوشلزم کو آزمانے کی کوشش کی گئی‘ توازنِ اختیارات کے نام پر صدارتی اور شخصی حکمرانی کا ایک ایسا آمرانہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق تھا اور نہ جمہوریت سے دور پار کا واسطہ۔ یوں اقبالؒ نے نوزائیدہ مملکت کو عہدِ حاضر میں ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ آج تک شرمندہ تعمیر نہ ہو سکا۔
یہ افسوس کا مقام ہے کہ اقبالؒ کے نظریات اور قائدؒ کے تصورات سے مسلسل انحراف کا نتیجہ ایک ایسے احساسِ محرومی‘ سیاسی بدنظمی اور اپنے مستقبل سے بے یقینی کی صورت میں نکلا جس کا فائدہ ان طبقوں نے اُٹھایا جو اسلام‘ جمہوریت‘ وفاق اور اقتصادی و معاشی معاملات کے حوالے سے انتہائی تنگ نظر‘ کنفیوژ اور عہدِ جدید کے تقاضوں سے بے خبر تھے‘ اس پر مستزاد ہمارے حکمرانوں کا غیروں بالخصوص امریکہ پر انحصار ہے جس نے عوام میں شدید غصہ اور اشتعال پیدا کیا۔ آج امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستان خود بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ ڈرون حملوں سے نہ صرف معصوم پاکستانیوں کی لاشیں گر رہی ہیں‘ بلکہ اس نے پاکستان کے وقار‘ خودداری اور خودمختاری کو بھی تار تار کر دیا ہے اور عملاً ہم امریکہ کے غلام یا امریکی کالونی بن چکے ہیں۔ انہی حملوں کے انتقام میں خودکش بمبار پاکستان کے کونے کونے میں دھماکے کر رہے ہیں‘ ملکی معیشت انحطاط پذیر ہے‘ ملکی امور چلانے کیلئے ٹیکسوں میں اندھا دھند اضافہ کیا جا رہا ہے اور خودانحصاری کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے قرض پر قرض لیا جا رہا ہے‘ جو قرض دینے والوں کے اپنے مفاد میں ہے۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ مزید قرض کیلئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر جا بیٹھے ہیں‘ جس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے مزید شرائط رکھ دی ہیں۔ بھارتی مداخلت سے بلوچستان جل رہا ہے‘ مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔
موجودہ سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشی اور معاشرتی بحرانوں سے نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان‘ حکمران‘ مذہبی رہنما اور قومی ادارے اقبالؒ کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنا کر ملک کا قبلہ درست کریں‘ خودی اور خود داری کی جو تعلیم اقبالؒ نے دی اس پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ حکمران قومی وسائل کو امانت و دیانت کے جذبے سے عوام کی فلاح و بہبود کےلئے استعمال کریں ۔پاکستان کو اقبالؒ و قائدؒ کی خواہش کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کے مطابق واقعی جدید اسلامی جمہوری پارلیمانی فلاحی ریاست بنایا جائے۔ یہی اقبالؒ اور فکرِ اقبال سے وابستگی کا حقیقی تقاضا ہے۔