بدھ‘ 3 ربیع الاول 1445ھ ‘ 20 ستمبر 2023ئ

عالمی بنک کی امداد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نگراں وزیر منصوبہ بندی 
صرف عالمی بنک ہی کیا ہم تو ان تمام اداروں کی امداد کو قدر ہی نہیں تشکر بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں جو ہمارے پھیلے کاسہ میں چند ٹکڑے یا سکے امداد کے نام پر ڈالتے ہیں اور اسکے بعد ہمیں اپنی مرضی کی پالیسیوں پر چلاتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے یوں
 اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے 
مجبور ہیں اف اللہ چپ رہ بھی نہیں سکتے 
والی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کا تو کچھ بھی نہیں جاتا وہ تو اس مانگے تانگے کے فنڈز پر بھی ہاتھ صاف کرنے میں ذرا بھر نہیں ہچکچاتے۔ کچومر تو عوام کا نکلتا ہے جن سے یہ قرضہ یا امدادی رقم واپس ادا کرنے کے لیے ان کو نچوڑ کر رقم حاصل کی جاتی ہے۔ عالمی امداد کے نام پر ہمارے حکمران جو عوام یا ملک کی حالت بہتر بنانے کے لیے بھاری رقوم حاصل کرتے ہیں وہ اگر اپنے اللوں تللوں پر اڑانے کی بجائے واقعی ملک و قوم پر خرچ کی جاتی تو آج پاکستان کی حالت بدلی ہوئی ہوتی۔ 
اب تو عالمی اداروں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ ان کی دی امداد یا قرضہ کہاں جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ پاکستان کے مظلوم عوام کی خاطر ان کی مشکلات میں کمی کے لیے دل کھول کر نہ سہی بہرحال مناسب حد تک امداد ضرور دیتے ہیں تاکہ ہمارے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ اس پر ان کا شکریہ ادا کرے کا حق تو بنتا ہے۔ ہاں البتہ آئی ایم ایف جیسے ساہوکاروں کا شکریہ ادا کرنے سے بہتر ہے کہ ان کا گلہ گھونٹ دیا جائے‘ میرا مطلب ہے ان کی دی گئی کسی بھی امداد کی پیشکش کو دور سے سلام کر کے واپس لوٹا دیا جائے۔ ہم ان کی کسی بھی نظر عنایت کے متحمل نہیں ہو سکتے ان کے ہاتھوں جو ظلم و ستم ہم نے قرضے کے نام پر اٹھائے ہیں اس کی بدولت آج پوری قوم سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ زندگی ایک عذاب بن چکی ہے۔ سچ کہیں تو بددعا بن چکی ہے۔ خدا ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے جلد نجات دلائے تاکہ غریب سکھ کا سانس لیں۔ 
٭٭٭٭٭
سکھ رہنما کے قتل میں ملوث بھارتی سفارتکار کو کینیڈا سے نکل جانے کا حکم
خالصتان تحریک کے گڑھ کینیڈا میں بڑی تعداد یعنی لاکھوں سکھ رہتے ہیں۔ یہی بات بھارت کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ دنیا بھر میں خالصتان کے حق میں جو ریفرنڈم سکھ آزادی پسند تنظیموں نے کرایا‘ اس میں بھارت سے آزادی اور خالصتان کے قیام کے لئے سکھوں نے ووٹ ڈالے۔ اس ساری سرگرمیوں کا مرکز کینیڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سرگرم خالصتانی سکھ رہنماﺅں کے قتل پر وہاں کی حکومت بھڑک اٹھی ہے۔ جی20 کانفرنس میں بھی کینیڈین وزیراعظم کی بھارتی وزیراعظم سے اس بارے میں سخت گرما گرمی ہوئی انہوں نے احتجاج کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے ملک کی خودمختاری کے خلاف کارروائی قرار دیا۔ اب کانفرنس سے واپسی کے بعد کینیڈا کی حکومت نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے بھارتی سفارتکار کو جو ”را“ کا ایجنٹ تھا۔ملک سے نکال دیا ہے۔ جس پر شبہ ہے کہ وہ سکھ رہنما کے قتل میں سہولت کار اور ملوث ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھارتی گیدڑ کو ہر کسی کے خربوزوں کے کھیت میں گھس کر منہ مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور موقع پر ہی اس کا سدباب کیا جائے گا۔ خالصتان تحریک اب سکھ رہنماﺅں کے بھارت اور دوسرے ممالک میں قتل اور بھارت میں سینکڑوں سکھوں کی گرفتاری کے باوجود آج بھی بھارت کے حکمرانوں کے ناک میں دم کئے ہوئے ہے۔ کسان تحریک کے دوران جس طرح سکھوں نے لال قلعہ پر خالصتانی پرچم لہرا کر بھارتی حکومت کی مٹی پلید کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی پنجاب کو تقسیم کرنے کے تین ٹکڑوں میں بانٹنے کے باوجود وہ آزاد خالصتان تحریک پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ سنت بھنڈرانوالہ کی چلائی تحریک آزادی کامیابی کی علامت ہے۔
٭٭٭٭
چین پاکستان میں الیکٹرک کاریں بنانے کا پلانٹ لگائے گا 
جب ملک میں پٹرول سونے کے داموں دستیاب ہو گا تو خودبخود لوگ الیکٹرک موٹر سائیکلوں، الیکٹرک گاڑیوں پر ہی نہیں عوامی سواری بائسیکل پر ہی آ جائیں گے۔ اسی لیے چین والوں نے جو ہمارے دوست ہیں سوچا ہو گا پاکستانی عوام کے مستقبل کی طلب پوری کرنے کے لیے وہ پاکستان میں الیکٹرک کاریں بنانے کا پلانٹ لگا دیں‘ اس میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ خود چین والوں کا بھی بھلا ہو گا۔ اگر یہ کاریں واقعی سستی ہیں تو واقعی کمال کی بات ہو گی۔ کم از کم لوگ یہ گاڑیاں خرید کر پٹرول کے استعمال سے بچ جائیں گے۔ مگر یاد رہے کہ ہمارے ہاں بجلی بھی کوئی زیادہ سستی نہیں ہے۔ یہ بھی آہستہ آہستہ سونے کے بھاﺅ تک پہنچ رہی ہے۔ پھر بھی سودا برا نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی نوجوانوں نے الیکٹرک بائیک بنا کر جو اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اگر حکومت ان کی سرپرستی کرے اور مقامی صنعتوں کے فروغ کے تحت یہ موٹر سائیکلیں تیار کر کے سستے داموں لوگوں کو فراہم کرے تو ملکی صنعتی ترقی میں یہ عمل معاون ثابت ہو گا۔ بیرونی ممالک کی مدد کی بجائے ہم ملک میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے الیکٹرک کاروں ، موٹر بائیکس کی تیاری شروع کرے تو ملکی سرمائے کو فروغ ملے گا۔ معاشی ترقی ہو گی اور مقامی صنعتوں کو تقویت ملے گی۔ یوں ہماری بیمار معیشت آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی اور ہمارے نوجوان انجینئرز کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ساری دنیا میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ حکومتیں مقامی صنعتوں کے فروغ کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ الیکٹرک کاروں اور بائیکس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے شور سے نجات ملے گی اور عوام کو سستے داموں یہ اشیاءدستیاب ہوں گی۔ بہرحال چین کی طرف سے پاکستان میں الیکٹرک کاروں کے پلانٹ کی تنصیب کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ 
٭٭٭٭ 
مقبوضہ کشمیر میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے والا سینئر لیکچرار معطل
 حیرت کی بات ہے‘ کیا دوسری شادی پر پابندی کے تمام احکامات صرف مسلمانوں کے لیے ہی ہیں۔ بھارتی ہندو اور عیسائی بھی تو دوسری شادیاں کرتے ہیں ان کے خلاف کوئی قانون کیوں حرکت میں نہیں آتا۔ فرق شاید یہ ہے کہ وہ مذہب تبدیل کر کے یہ کام کرتے ہیں۔ یوں قانون کو دھوکا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام میں قانونی طریقے سے ایک مسلمان اگر دوسری شادی کرتا ہے۔ دونوں بیویوں میں انصاف برقرار رکھتا ہے تو کسی قانون کی خلاف ورزی کیسے ہوتی ہے۔ اس سے کونسا نقص امن کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ رہی بات پہلی بیوی سے اجازت کی تو نکاح کرنے والا اعلان کے بعد ہی یہ شادی کرتا ہے سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ایک بار پھر سہرا سجانے لگا ہے۔ اس سے انتظامیہ کا کیا لینا دینا ، ان سے اجازت کیوں ضروری۔ کیا طلاق کے لیے یا بچہ پیدا کرنے کے لیے بھی اب کشمیری مسلمانوں کو حکومت سے مطلب سے مقامی انتظامیہ سے اجازت لینا ہو گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہر کشمیری شادی کرنے کے لیے انتظامیہ کو درخواست دے اور انتظامیہ اس کی شادی کے اخراجات بھی اٹھائے۔ لڑکا ہو لڑکی اس کی شادی کرائے۔ یہ سب کچھ کشمیریوں کو جان بوجھ کر تنگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ان پر جائز طریقے سے زندگی بسر کرے کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ ہندو دھرم میں تو دوسری شادی کی اجازت نہیں اس کے باوجود لاکھوں ہندو دوسری بیوی رکھتے ہیں جائز طریقے سے ورنہ ناجائز طریقے سے یہ تعداد کروڑوں میں پہنچ سکتی ہے۔ تو پھر مسلمانوں کو ایک جائز کام کے لیے جس کی اجازت ان کے مذہب میں بھی ہے سزا کیوں دی جا رہی ہے۔ یہ دوغلی ظالمانہ پالیسیاں صرف مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...