اگست 2021کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان کا حقیقی منظر نامہ جب بین الاقوامی میڈیا سامنے لے کر آیا تو دنیا کو معلوم ہوا کہ گزشتہ 20برسوں میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے وہاں سوائے انسانی حقوق کی پامالیوں کے اور کچھ نہیں کیا البتہ اپنی عوام کو دھوکا دینے کیلئے مخصوص این جی اوز کے ذریعے اپنے وفادار مردوخواتین تیار کرنے کے بعد انہیں زبان ولباس کے حوالے سے مغربی تہذیب میں ڈھال کرتاثر ضرور دیا جاتا رہا کہ افغانستان کو ایک جدید جمہوری نظام دے کر وہاں ایک ایسا معاشرے کی بنیاد ڈال دی گئی ہے جو جلد ہی افغانستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑ ا کرے گا۔ خواتین پرمشتمل کرکٹ و فٹبال کی ٹیمیں ہوں یا تیراکی سمیت دیگر کھیلوں میں حصہ لینے والی افغان خواتین ۔ ان کے ساتھ اگر فنون لطیفہ و ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد کے اعتبار سے ان خواتین کی تعداد افغانستان میں خواتین کی مجموعی آبادی میںآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بنتی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ گزشتہ بیس برسوں میں امریکی و نیٹو ممالک کی ایئرفورس کے ذریعے حملوں میں ماری گئی افغان خواتین ان ماڈرن خواتین سے دس گنا زیادہ ہیں جن کے ’’مادر پدر آزاد‘‘حقوق کیلئے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک فکر مند ہیں۔
اب یہ بھی کیاافغان طالبان کی سازش ہے کہ جب سے انہوںنے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا ہے وہاں نہ تو کوئی خاتون اغوا اور عصمت دری کاشکار ہوئی ہے، نہ ہی افغانستان میں موجود افغان طالبا ن کے مخالفین ایسا کوئی وقوعہ سامنے لاسکے ہیں جس میں خواتین پر افغان طالبان کی طرف سے تشدد کا کوئی واقعہ شامل ہو۔ اس سے قبل نہ صرف غیر ملکی فوجی افغان خواتین کی عصمت دری کرتے رہے بلکہ امریکہ میں تاحال ایسے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں امریکی فوجیوں نے افغانستان میں اپنی ساتھی خواتین فوجیوں کو عصمت دری کا نشانہ بنا ڈالا ۔اور تو اور امریکہ کی زیرسرپرستی افغانستان کو پاکستان کے خلاف سازشوں ، دہشت گردی اور خودکش حملوں کیلئے استعمال کرنے والے بھارتی خفیہ اداروں کے افراد بھی افغان خواتین پر جنسی تشدد کے مرتکب پائے گئے۔ وہاں تعلیم و صحت کے شعبوں میں کام کرنے والے ہندو اساتذہ و ڈاکٹروں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے افغان خواتین سے شادیاں کیں اور پھر ان خواتین کو بے یارومددگار اور تباہ حال چھوڑ کر واپس بھارت چلے گئے۔ اسی طرح انسانی سمگلنگ کے کاروبا سے وابستہ بھارتی افغان لڑکیوں کو اغوا کر کے بھارت اور مغربی ممالک کے قحبہ خانوں کو فروخت کرنے میں ملوث رہے ۔ جسم فروشی کیلئے بھارت منتقل کی جانی والی افغان خواتین سے متعلق بھارت میںخواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے دہلی ، ممبئی گوا، کیرالہ اور مغربی بنگال میں جسم فروشی کے اڈوں سے سینکڑوں افغان خواتین کو 2014میں بازیاب کرایا جس کے تفصیل بھارتی میڈیا کے علاوہ امریکی و مغربی اخبارات میںبھی روپورٹ ہوئی ۔ ان افغان خواتین نے واپس افغانستا ن واپس جانے سے صرف اس لیے انکار کردیا کہ وہاں انہیں کوئی قبول نہیں کرے گا انہیں قتل کیے جانے کا بھی خوف تھاحالانکہ انہیں اغوا کر کے افغانستان سے بھارت لایا گیا تھا۔
لیکن وہی بھارت جسے خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا جاتا ہے،جہاں روزانہ ہر آدھے گھنٹے میں ایک خاتون کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس میں 8برس کی بچی سے لے کر 80برس کی ضعیف خواتین تک شامل ہیں ،لیکن 15 اگست 2021کے بعد سے بھارت کے تمام معروف انگریزی اخبارات جو برطانیہ و امریکہ سمیت پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں ان میں افغان خواتین کے تحفظ کیلئے جو کچھ لکھا جارہا ہے اور جس طرح کی خبریں و سرخیاں شائع کی جارہی ہیں وہ دنیا بھر میں انسانی رائے عامہ کو متاثر کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ’’افغانستان میں عورت ہونا بدقسمتی ہے‘‘، ’’طالبان کی واپسی کے بعد وہاں عورت کیلئے برقعہ ہے یا پھر موت‘‘ ۔ ’’ طالبان نے اقتدار حاصل کرتے ہی خواتین پر مظالم کا آغاز کردیا‘‘۔ ’’حکومتی اداروں ، تعلیمی درس گاہوں اور ہسپتالوں میں خدمات سر انجام دینے والی خواتین نے گھروں میں پناہ لے لی‘‘۔ ’’امریکہ نے افغانستان میں خواتین کو بھیڑیوں ( طالبان) کے حوالے کر دیا‘‘۔ ’’اب افغان خواتین کوتحفظ کون فراہم کرے گا‘‘۔ ’’طالبان کے آتے ہی افغانستان میں خواتین غائب ہوگئیں‘‘۔ ’’افغانستان میں خواتین کیلئے اب نہ کوئی امید، نہ کوئی عزت ،نہ کوئی آزادی ،نہ حقوق،وہ زندگی کیسے گزاریں گی‘‘۔ ’’افغانستان میں خواتین کا تحفظ اقوام عالم کا فرض ‘‘بھارت کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی مندرجہ بالا چند سرخیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کے خلاف بھارت کی طرف سے پروپگنڈہ کس زور و شور سے جاری ہے اور اس پروپیگنڈے کے زیر اثر امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین والے افغان طالبان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی پروپگنڈے سے متاثر ہو کرامریکہ و برطانوی تھینک ٹینک وہاں کے تبصرہ نگار اور امریکی حکمران افغانستان میں خواتین کے تحفظ کو لے کر روز نت نئے بیانات جاری کر رہے ہیںمضامین لکھے جارہے ہیں اور جھوٹ پر مبنی تبصرے جاری کر رہے ہیںلیکن ان میں سے کوئی ایک بھی بھارت میں اقلیتوں ، خاص کر خواتین پر مظالم کے حوالے تمام تر حقائق سامنے ہونے کے باوجود بھارت کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں، مقبوضہ کشمیر جہاں انسانیت کا قتل عام جاری ہے ،جہاں ناجائز قابض بھارتی فوج ظلم و بریریت کے نت نئے تجربے کرنے میں مصروف ہے، جہاں باہر کی دنیا سے کسی کو حقائق جاننے کے لیے داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔کشمیریوں پر ظلم کا علم ہونے کے باوجود امریکہ و برطانیہ پر سکوت مرگ طاری ہے۔ امریکی عوام پوچھ رہے ہیں کہ تین کھرب ڈالر افغانستان میںکہاں خرچ ہوئے۔ امریکی وزیر خارجہ جواب میں پاکستان کے ساتھ تعلقات پر غور کی بات کرتے ہیں۔پوچھا جاتا ہے کہ 85ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان میںطالبان کے ہاتھ کیسے لگ گیا ۔ جواب ملتا ہے کہ امریکہ طالبان حکومت کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ امریکی تربیت یافتہ افغان فوج بجائے طالبان سے لڑنے کے اسلحہ چھوڑ کر فرار کیوں ہوگئی ۔ جواب ملتا ہے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا مقصد پورا کر لیا۔ امریکی کانگریس میں امور خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلکن سے جب ایک سینیٹر نے پوچھا کہ کابل ایئر پورٹ پر خود کش حملے کے جواب میں امریکہ نے خود کش حملے کا ماسٹر مائنڈ اور داعش کا اہم لیڈر قرار دے کر جس گھر پے ڈارون حملہ کیا اس حملے میںامریکہ کیلئے کام کرنے والا ایک انجینئر اپنے معصوم بچوں سمیت کیسے مارا گیا تو امریکی وزیرخارجہ کا جواب تھا کہ اس کی تحقیقات ہورہی ہے ۔ ہفتے بعد اپنے اس بہیمانہ اقدام کو غلطی قراردے کر معافی مانگ لی گئی ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے بڑا خطرہ امریکہ سے ہے اور امریکہ ہی کے زور پر بھارت نے مقبوضہ و جموں کشمیر اور اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسان اور انسانیت کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024