طبقاتی نظام تعلیم…وحدت و یک جہتی کیلئے زہر قاتل…(2)
وہ کرپشن کے گڑھ ٹیکسٹ بک بورڈز خدا کی پناہ۔ کسی ایک صوبے کے محدود تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس کی ضروریات تو ان سے کبھی پوری ہوئیں نہیں ملک بھر کے ہزاروں تعلیمی اداروں کے کروڑوں سٹوڈنٹس کو ایک جیسی کتب کو ن فراہم کرے گا ۔ پھر اگر ایلیٹ کلا س سکول و کالجز گورنمنٹ پرائمری سکول ، گھسیٹ پورہ کے الف انار، ب بکری، پ پنکھا یا دو ایک دواور دودونی چار سے اوپر اٹھ کر اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم اپنے اعلی تعلیمیافتہ اساتذہ کے ذریعے پڑھا رہے ہیں تو ان کو ایسا کرنے سے روکنا یا پرائمری سکول گھسیٹ پورہ کے لیول پر لانے کا سوچنا کہاں کی دانش مندی ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دور دراز دیہاتوں کے پرائمری و مڈل سکولوں کے سٹوڈنٹس کو جدید ترین غیر ملکی سلیبس پڑھانے کا تصور کرنابھی کارمحال بلکہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ اب رہا اولیو ل اور اے لیول پر پابندی کا سوال تو یہ وہی اولیول اور اے لیول ہے نا جس میںہر سال دو سال پاکستانی سٹوڈنٹس ورلڈ ریکارڈ بنایا کرتے ہیں ۔معزز قارئین اگر یہ او لیو ل اور اے لیول کا بہت اچھا نظام تعلیم بہت مؤثر طریقے سے چل رہاہے اور ہمارے بچے اس میں اپنا لوہا بھی منوارہے ہیں تو اسے ختم کرنے کا سوچنے والے بھی کسی صحت مند سوچ کے حامل قرار نہیں دیئے جاسکتے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا طبقاتی نظام ِ تعلیم کا تصور غلط ہے؟ کیا اس کے کوئی منفی اثرات نہیں؟ اور کیا اس کے خاتمے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی؟ تو جناب ٹھیک ہے کہ طبقاتی نظام تعلیم کا کوئیحل ضرور ہونا چاہیے۔ راقم کی حقیر رائے میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کی ایک عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورے ملک میں پرائمری ، مڈل ، ہائی سکول اور ہائر سکینڈری سطح کے امتحانات کا ایکیکساں اور موثر نظام نافذ کردیا جائے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایلیٹ کلاس،انگلش میڈیم، پرائیویٹاور سرکاری تعلیمی ادارے اور دینی مدرسے جو جیسے پڑھا رہے ہیں پڑھاتے رہیں انھیں نہ چھیڑا جائے۔ یہ اپنا اپنا نصاب اپنے اپنے طریقے سے پڑھاتے رہیں اور اپنا او یا اے لیول یا درس نظامی بھی کرواتے رہیں ۔ تاہم ان سب کو مذکورہ بالا چاروں سطح کے ریاست پاکستان کے یکساں اورایک جیسے امتحانات کے لیے بھی قانوناً پابند بنادیا جائے ۔ یہ پابندی اداروں سے بھی زیادہ سٹوڈنٹس پر لگا دی جائے کہ ہر اگلے مرحلے میں جانے کے لیے پچھلے مرحلے کا اسٹیٹ آف پاکستان کا امتحان پاس کرنا لازم ہوگا۔ بعدازاں یونیورسٹیوں نیز میڈیکل و انجینئرنگ کالجز میں داخلے اور افواج ِ پاکستان میں ملازمت یا سول سروسز اور ہر قسم کی ملازمتوں کے حصول کے لیے یہ لازم قرار دے دیا جائے کہ امیدوار نے تعلیم خواہ کسی بھی ادارے میں حاصل کی ہو اس نے اسٹیٹ آف پاکستان کا پرائمری ، مڈل ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا ہوا ہو۔ یوں بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کئے بغیر ہی طبقاتی تعلیم کے منفی اثرات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور محض یکساں نظام ِ امتحان نافذ کرکے تمام مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ہر ڈویڑن میں پہلے ہی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہیں۔ ان کا دائرہپرائمری و مڈل امتحان تک پھیلانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے کسی لمبے چوڑے انتظامات اور اخراجات کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔ یہ بورڈ صوبائی حکومتوں کے محکمہ ہائے تعلیم کے ماتحت ہی کام کرتے رہیں بس مرکزی حکومت کوآرڈینٹر کا کردار ادا کرے اور ان سب کو ایک لڑی میں پرودے تاکہ یہ ایک وقت میں ایک جیسے نصاب کا ہر ایک سطح کا امتحان لیں اور ایک ہی دن نتیجہ کا اعلان کریں۔ رہا نصاب تو اسٹیٹ آف پاکستان اپنی نظریاتی ، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی و اقتصادی ضروریات کو ملحوظ ِ خاطر رکھ کر اپنا پرائمری ، مڈل، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا ایک نصاب طے کرکے مشتہر کردے۔پبلیشروں کو عام اجازت دے دی جائے کہ وہ نصاب کے مطابق کتب شائع کریں۔ سٹوڈنٹس اور ان کے اساتذہ جس پبلیشر کی کتاب کو بہتر سمجھیں لے کر پڑھیں۔ کالج لیول پر ہمارے ہاں یہی نظام پہلے سے موجود ہے۔ سٹوڈنٹس اپنی مرضی کے ادارے میں پڑھیں۔ اور اپنی مرضی کی کتابوں سے تیاری کرکے امتحان دیں۔ لیں جناب طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو نہ ہو ہر کسی کو ایک ہی پل صراط سے گزار کر نہ صرف نظام تعلیم میںیکسانیت لائی جاسکتی ہے۔ بلکہ ہر کسی کے لیے ایک جیسا نصاب طے کرکے قومی و ملی مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔(ختم شد)