کیا چائے حرام ہے؟
سانحہ لال مسجد کو چودہ سال بیت گئے لیکن اس سانحہ کے باقاعدہ sequelsمختلف صورت میں مختلف ادوار میں دیکھے جاتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں اس لال مسجد آپریشن سے روکنے سے سپریم کورٹ کی معذرت، اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق کے آنسو، وزیر اطلاعات شیخ رشید کا اپنے حلقے سے الیکشن ہارنے پر اس آپریشن کے سہولت کار ہونے پر پچھتاوا، چوہدری شجاعت حسین کا بطور مصالحت کار بے بسی وبے چارگی، دیگر دینی مکاتب فکر کے علمائ کی مجرمانہ خاموشی اور حکمرانوں کے منافقانہ رویے تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اگرچہ وہ تمام اسباب اور توجیہات جو اس آپریشن پر منتج ہوئیں انکی سنگینی سے کسی کو انکار نہیں۔ریاست کے اندر ریاست کوئی بھی حکومت گوارا نہیں کرتی اور نہ ہی کرنا چاہیئے۔لیکن اس سانحہ میں جو قتل عام ہوا وہ more sinned against sinningکے مصداق جرم کی سنگینی سے بھی ذیادہ سنگین تھا۔ جب آپریشن میں عبدالرشید غازی شہید ہو گئے توانکی میت کا حصول بھی ورثاء کے لیئے چیلنج تھا۔ حکومت وقت کا کہنا تھا کہ انکی تدفین حکومت ہی کرے گی اور میت کسی صورت بھی اہل خانہ کے حوالے نہیں کی جائے گی۔میت لینے کے لیئے بھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ میں عینی شاہد ہوں کہ سپریم کورٹ میں عبدالرشید کی بہنیں اورایک بھانجے عامرصدیق(جو بعد میں لال مسجد میں ہی قائم مقام خطیب کے فرائض انجام دیتے رہے) سپریم کورٹ کی راہداریوں میں درخواست اٹھائے پھرتے رہے۔عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا لیکن رجسٹرار آفس نے انکی درخواست چیف جسٹس تک پہنچائی اور پھر مطلع کیا کہ سپریم کورٹ کا ایک خصوصی بنچ اسی روز اس درخواست کی سماعت کرے گا۔اس حوالے سے عدالت نے متعلقہ حکام کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ اس پیش رفت پر مولانا رشید کے اہل خانہ کوداد رسی کی امید ہوئی۔ دن ڈھل گیا تب کہیں جا کر عدالت لگی، اس وقت وزارت داخلہ کے کرتا دھرتا ایک بریگیڈیئر جاوید اقبال ہوا کرتے تھے، وہ پیش ہوئے اورعدالت میں انکشاف کیا کہ مولانا عبدالرشید کی میت خصوصی طیارے میں بلوچستان کی ایک تحصیل رجھان مزاری میں پہنچا دی گئی ہے جسکی اب واپسی ممکن نہیں۔ اس سپاٹ جواب سے مولانا کے اہل خانہ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ عدالت نے ریلیف دیا تو صرف یہ کہ انکے قریبی اقارب کو تدفین میں شرکت کے لیئے حکومتی طیارہ مہیا کیا گیا جس میں شہید مولانا کے بھائی مولانا عبدالعزیز بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے بھائی کی نماز جنازہ تو پڑھائی لیکن مزید آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی کیونکہ وہ جنگی قیدی تھے اور حکومت وقت کی حراست میں تھے۔ مولانا عبدالرشید کی شہادت سے جہاں ایک باب ختم ہوا،وہیں مولانا عبدالعزیز اور انکی اہلیہ ام حسان کی گرفتاری سے لال مسجد کی تاریخ کے نئے باب کا اضافہ ہوا۔ مولانا عبدالعزیز آپریشن کے دوران برقعہ میں روپوش ہو کر کس طرح گرفتار ہوئے تھے اس کے لیئے وہ آج بھی کوئی ٹھوس توجیہ دینے سے عاجز ہیں۔ گرفتاری کے بعد حکومت نے انہیں خصوصی قانون کے تحت نظربند رکھا وہ اسلام آباد کے نزدیک سہالہ کے ایک ریسٹ ہاوس میں ایک عرصہ تک نظر بند رہے تا وقت یہ کہ حالات تبدیل ہوئے اور انہیں عدالتی حکم پر ہی رہائی ملی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لال مسجد آپریشن اور اپنی گرفتاری سے پہلے تک مولانا عبدالعزیز کبھی کیمروں کے سامنے نہیں آتے تھے۔اور عکسبندی کو ایک غیر شرعی عمل سمجھتے تھے۔ لیکن گرفتاری کے وقت ہی انہیں جب سرکاری ٹی وی کے سامنے پیش کیا گیا توباقاعدہ ہدایت دی گئی کہ کیمرہ آن ہو گا آپ کو اشارہ کیا جائے گا تو آپ برقعے میں چھپے رہ کر ہی کیمرہ کے سامنے آئیں گے، بولنا شروع کریں گے اور پھر کچھ دیر بعد نقاب الٹیں گے تاکہ دیکھنے والوں کو ساری کہانی سمجھ آجائے۔ مولانا صاحب اس عمل کو ایک شدید دباومیں اور بزور طاقت لیا گیا عمل گردانتے ہیں۔ ورنہ انکی نظر میں تو کیمرہ کے سامنے آنا ہی گناہ تھا۔ لیکن حیران کن طور پر جب مولانا صاحب اپنی طویل قید و نظر بندی سے رہائی کے بعد لال مسجد میں پہلا جمعہ پڑھانے کے لیئے منبر پر بیٹھے تو انکے سامنے ٹی وی چینلز کے کیمروں کا ایک حصار تھا جو انکی خصوصی کوریج کے لیئے موجود تھا۔ وہ مولانا جو کبھی کیمروں کا سامنا نہ کرتے تھے اب ان ہی کیمروں کا سامنا کر رہے تھے اور اس پر قطعی طور معترض بھی نہیں تھے۔ مجھ جیسے مسلمان سوچ میں پڑ گئے کہ مولانا صاحب کا عکسبندی سے متعلق رہائی سے پہلے والا عمل درست تھا یا اب بعد والا۔ مولانا صاحب رہائی کے بعد اپنی تقاریر میں نظریاتی طور پر ثابت قدم ہی نظر آئے بس الفاظ کا چناو اور لہجہ اور انداز خطابت میں قدرے نرمی ضرور نظر آئی۔ حکمرانوں کے لیئے لہجے اور للکار کی جو کاٹ اور اسلامی نظام کے لیئے اہل وقت کو الٹی میٹم دینے والا لہجہ،جو ان کے والد محترم مولانا عبداللہ ؒکا خاصہ تھا وہ ماند نظر آیا۔ بدلتے وقت کے ساتھ مولانا کی جانب سے بدلتے بیانات اور فتاویٰ آتے رہے۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے ہی مدرسے میں بیٹھنے والے صوفوں کو یہ کہہ کر آگ لگا دی کی صوفوں پر بیٹھنا سنت نہیں ہے وہ سب زمین پر بیٹھا کرتے تھے اس لیئے آج میں ان صوفوں کو آگ لگا رہا ہوں میرے جیسے اور بھی طالبعلم جو مولانا کے لیئے نہ صرف عقیدت رکھتے ہیں بلکہ دینی معاملات میں اصلاح کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا واقعی ہم صوفوں کے استعمال سے سنت کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے۔ ایک اور وڈیو میں مولانا صاحب نے تفصیل کے ساتھ چائے کے نقصانات گنوائے اور اس بنیاد پر فتویٰ صادر کر دیا کہ چائے پینا حرام ہے؟میں نے یہ وڈیو کئی بار صرف اس لئے دیکھی کہ مجھ سے سمجھنے میں کوئی خطا نہ ہو جائے۔ لیکن مولانا صاحب نے نتیجہ یہی دیاکہ چائے حرام ہے۔اس وڈیو کو دیکھنے کے بعد سے میں بھی سوچ رہا ہوں کہ بچپن سے اب تک جو چائے پیئے جا رہا ہوں میں، گویا کہ ایک مسلسل گناہ کیئے جا رہا ہوں میں۔اب جب سے افغانستان میں طالبان حکومت آئی ہے تب سے لال مسجد سے منسلک مدرسے پر طالبان کے پرچم لہرا دیئے گئے تھے۔قانون نافذ کرنے والوں نے لال مسجد کی طرف نفری بڑھائی کہ طالبان کے یہ پرچم ہٹائے جائیں، مولانا صاحب نے اس مقصد کے لیئے آنے والے پولیس والوں کو دھمکایا کہ ابھی طالبان آئیں گے تو تم سے نمٹ لیں گے اور یہ کہ پولیس کی نوکری چھوڑ دو اللہ سے کوئی اور بہترذریعہ رزق طلب کرو۔ خیر انتظامیہ نے ایکشن لیا، جھنڈے اتار دیئے گئے، مولانا کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی بلکہ ایف آئی آر کو سیل کر دیا گیا ہے جسکا مطلب ہے کہ مولانا کے سر پر ایک تلوار لٹکا دی گئی ہے اور کاروائی کے لیئے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جائے گا اس دوران میری طرح مولانا کے بہت سے معتقدین صوفوں پر بیٹھ کرچائے پی رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی صوفوں کاا ستعمال خلاف شریعت ہے اور کیا واقعی چائے حرام تو نہیں؟