بھارت نے امریکی سافٹ ویئر پاکستان و چین کے خلاف استعمال کیا
بھارت کا خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے مذموم ہتھکنڈے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی راز بھی نہیں ہے کیونکہ خطے میں موجود تمام ممالک اس سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ وہ اس حوالے سے کئی بار مختلف بین الاقوامی فورمز پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان اور چین ہوتے ہیں اور ان دونوں ممالک نے کئی بار بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو بھارت کے مذموم عزائم اور اوچھے ہتھکنڈوں کے بارے میں ثبوتوں کے ساتھ تفصیلات مہیا کی ہیں۔ چین کا معاملہ پاکستان کی نسبت مختلف اس لیے ہے کہ ایک تو اس کا بھارت سے جڑا ہوا سرحدی علاقہ پاکستان کی نسبت زیادہ طویل نہیں ہے، اور دوسرے چین اتنی بڑی اقتصادی اور دفاعی قوت بن چکا ہے کہ اب بھارت کے لیے اس کے مقابلے میں کھڑے ہونا ممکن ہی نہیں رہا۔ علاوہ ازیں، چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں میں وہ مقام حاصل ہے کہ بھارت اس کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا۔ پاکستان کی صورتحال چین سے بہت مختلف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت چین کے خلاف محض باتیں ہی کرتا ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں وہ اپنی بدباطنی کا اظہار پوری طرح کھل کر کرتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ لڑی جانے والی اس کی چار جنگیں بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طور مستحکم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس سلسلے میں بھارت کوبعض عالمی طاقتوں کی طرف سے شہ بھی حاصل ہے کیونکہ پاکستان کئی بار مختلف عالمی فورمز پر بھارت کے خلاف کئی طرح ثبوت اور شواہد مہیا کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں ایسے عناصر موجود ہیں جو بھارت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر والا معاملہ ایک بہت اہم اور واضح ترین مثال ہے۔ مقبوضہ وادی میں مظلوم کشمیری عوام پر بھارت نے ہر طرح سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس حوالے سے کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 777 روز سے جاری کرفیو بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عالمی برادری کو انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں اور بڑے بڑے ادارے بھی محض باتیں ہی کرتے ہیں۔
اس تنازعے کے علاوہ، پاکستان نے اپنی حدود میں ہونے والی تخریب کاری کی کئی کارروائیوں سے متعلق ثبوت اور شواہد اکٹھے کر کے مختلف عالمی فورمز پر بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھے اور بتایا کہ بھارت کس طرح اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے خطے میں امن و امان کے قیام کا دشمن بنا ہوا ہے اور کس طرح وہ اپنے ہمسایوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سب کا بھی بین الاقوامی برادری پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب ایک نیا کیس سامنے آیا ہے جس کے مطابق ایک امریکی کمپنی ایگزوڈس انٹیلی جنس سے بھارت نے ایک سافٹ ویئر خریدا تھا۔ بھارت نے اس سافٹ ویئر کے ذریعے پاکستان اور چین کے سرکاری کمپیوٹرز کو نشانہ بنایا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت مائیکرو سوفٹ ونڈوز کی آڑ میں دونوں ملکوں کی حکومتی اور ٹیلی کام اداروں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ یہ سلسلہ 2020ء میں شروع کیا گیا تھا اور اپریل 2021ء تک جاری رہا۔ امریکی میگزین فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق کمپنی نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام قابل قبول نہیں۔ ہم بھارتی اقدام کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا کمپنی کے کوڈ دیگر ممالک کو تو نہیں لیک کیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2 برسوں میں بھارت کی طرف سے کم از کم 6 مرتبہ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک روسی سکیورٹی کمپنی نے بھارت کی چین اور پاکستان کے خلاف سائبر مہم کا کھوج لگایا جس کے بعد امریکی کمپنی نے بعد میں بھارت کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔ کمپنی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بھارت نے جنوبی کوریا کو بھی ہماری کچھ نہ کچھ ٹیکنالوجی فراہم کی ہو گی۔
بھارت کی اس گھناؤنی حرکت کے منظر عام پر آنے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ بھارت مسلسل ایسے مذموم اقدامات کررہے ہیں جن کی وجہ سے خطے کا امن و امان خطرات سے دو چار ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور چین مل کر بین الاقوامی برادری میں اور عالمی فورمز پر بھارت کے خلاف لابنگ کرتے ہوئے اس حوالے سے عالمی اداروں کی رائے ہموار کریں کہ بھارت کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے۔ بھارت کا مسلسل ایسے اقدامات کرنے کا مقصد خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا ہے لیکن یہ طے ہے کہ بھارت کا یہ خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اس کی طرف سے کی جانے والی مذموم حرکتیں اس کی عزت اور اثر و رسوخ میں کسی اضافے نہیں بلکہ شرمندگی کا باعث ہی بن رہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو اپنی خاموشی یا کھوکھلے بیانات سے یہ تأثر ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ بھارت کو اشیا کی خرید و فروخت کی ایک بڑی منڈی سمجھ کر اس کی ہر طرح کی حرکتوں سے چشم پوشی کررہی ہے۔ بھارت کا اپنے ہمسایوں کی یوں جاسوسی کرنا اور ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آسکتا۔ بین الاقوامی برادری کو اس سلسلے میں پاکستان اور چین کے ساتھ کھڑے ہو کر بھارت کو یہ بتانا چاہیے کہ اسے اس کے مذموم عزائم حاصل نہیں کرنے دئیے جائیں گے۔