پیر ‘ 12؍ صفر‘ 1443ھ‘ 20؍ ستمبر2021ء
شہبازشریف ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں: شبلی فراز
آج کل شہبازشریف پھر سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔ وہ وقفے وقفے سے حکومت اور حکمرانوں پر تابڑ توڑ حملے بھی کررہے ہیں۔ ان کی کڑی تنقید کے جواب میں حکومتی ترجمان خاموش ہوں یہ ممکن نہیں۔ سو وہ بھی جواب میں خوب گولہ باری کررہے ہیں۔ شبلی فراز بھی حکومت کے ان ترجمانوں میں شامل ہیں جو ہر تنقید کے جواب میں فوری بیان جاری کرکے صف اول میں رہنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ رہی بات شہبازشریف کے ذہنی توازن کھو بیٹھنے کی تو کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے سیاستدان جب حکومت میں ہوتے ہیں تب بھی ان کا ذہن بگڑ جاتا ہے۔جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تب بھی ذہنی توازن برقرار نہیں رہتا۔ کبھی اقتدار کا نشہ ان کے سر پر چڑھ کو بولتا ہے۔کبھی اقتدار کھونے کا غم ان کی مت مار دیتا ہے۔ یوں دونوں صورتوں میں ہمارے سیاستدان ہوش و خرد سے بیگانہ نظر آتے ہیں اس لئے ہم نہ تو حکمرانوں سے گلہ کرتے ہیں نہ اپوزیشن والوں سے کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے غم ہیں۔ انہیں اپنے غموں سے نجات نہیں ملتی بقول شاعر
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اس بنا پہ فکرِ عالم کیا کریں
اس لئے عوام کو ان کی ذہنی حالت سے کوئی غرض نہیں۔ ہاں البتہ ان کا ذہنی توازن بگڑنے سے جو عوام اور ملک کا نظام بگڑتا ہے اس سے بجٹ سے لے کر عام آدمی کا دستر خوان متاثر ہوتا ہے۔ اس سے عوام کو پریشانی ہوتی ہے مگر سیاستدان اس سے بے خبر رہتے ہیں ان کے پاس اچھا ڈرامہ ہوتا ہے اپنے ذہنی توازن کے خراب ہونے کا۔ تو پھر بھلا عوام کسی پاگل فاتر العقل سے کیا گلہ کریں کیا شکوہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭
سپیڈ بریکر کا فائدہ ڈاکو اٹھانے لگے
جی ہاں یہ ایک حقیقت ہے۔ یقین نہ آئے تو ذ را سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز ہی دیکھ لیں۔ مختلف شہروں خاص طورپر کراچی میں تو ان سپیڈ بریکروں کا اصل فائدہ ان کو بنانے والے نہیں بلکہ ڈاکو اور رہزن اٹھا رہے ہیں۔ جو سپیڈ بریکر کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہ تو اب اتنے نڈر ہو چکے ہیں کہ انہیں اس بات کا بھی خوف نہیں رہا کہ یہ جگہ سنسان ہے یا رش والی ہے۔ نہ ہی انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ آس پاس کوئی سکیورٹی کیمرہ لگا ہے۔ چشم زدن میں جونہی کوئی آسان شکار موٹرسائیکل سوار ہو گاڑی والا یا رکشے والا‘ سپیڈ بریکر پر رفتار آہستہ کرتا ہے‘ یہ اچھل کر سامنے آجاتے ہیں اور گن پوائنٹ پر نقدی‘ موبائل اور قیمتی سامان چھین کر یہ جا وہ جا۔ ایسی صورتحال میں اب جن لوگوں نے شوقیہ طورپر گھروں کے باہر گلیوں میں جا بجا سپیڈ بریکر بنائے ہیں‘ انہیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی ان کی بدولت آسان چارہ ثابت ہوں اور کوئی مسلح شخص انہیں انہی کے بنائے سپیڈ بریکر پر ان کی گھر کی دہلیز یا اپنی ہی گلی میں لوٹ کر چلتا نہ بنے۔ ہمارے ہاں بڑے شہر ہوں یا چھوٹے‘ ہر جگہ قدم قدم پر سپیڈ بریکر بنانے کا رواج چل نکلا ہے۔ بے شک اس کے فوائد بھی ہیں مگر نقصان بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ چور ڈاکو اٹھا رہے ہیں اور شریف شہریوں کے پاس سوائے لٹنے کے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔
٭٭٭٭٭٭
امریکی بائیکر خواتین نے پاکستان کو محفوظ ملک قرار دیدیااور کرس گیل کا پاکستان جانے کا عزم
نیوزی لینڈکی کرکٹ کی طرف سے میچ شروع ہونے سے قبل پراسرار طور پر دورہ منسوخ کرنے کا اعلان جہاں ابھی تک پاکستانی عوام میں غم و غصے کا موجب بنا ہوا ہے۔ وہیں دوسری طرف پاکستان کا سیاحتی سفر موٹربائیکس پر کرنے والی 9 امریکی سیاح خواتین کا کہنا ہے کہ پاکستان محفوظ ترین ملک ہے انہیں دوران سفر و سیاحت کہیں بھی رتی بھر پریشانی نہیں ہوئی۔ یہ ان ممالک اور لوگوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو امن و امان اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کررہے ہیں۔ جب ان امریکی خواتین کو بنا کسی سکیورٹی کے کوئی مسئلہ کوئی خطرہ نہیں تو نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کوکیا موت پڑی تھی جسے سربراہ مملکت والا پروٹوکول اور حفاظتی حصار حاصل تھا۔ وہ کیوں بزدلوں کی طرح دم دبا کر پاکستان کا دورہ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان سے زیادہ امریکی بائیکر خواتین سیاح ہیں یا پھر ویسٹ انڈیز کے آل رائونڈر کرس گیل جنہوں نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ’’میں پاکستان جارہا ہوں کون کون میرے ساتھ جائے گا‘‘ کا بیان جاری کرکے وہ دھوم مچا دی ہے کہ دنیا بھر میں ان کو سراہا جارہا ہے۔ ان کی تعریف کی جارہی ہے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے فالورز اور دیگر لوگ ان کی حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ اب ان کے اس بیان کے بعد نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے سکیورٹی خطرے کا۔ یہ سب پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش تھی جس میں دشمن کامیاب رہے مگر اس کے باوجود ہمارے دوست آج بھی ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور ہمارے ہاں آکرکھیلنے کو تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ٹھٹھہ سجاول پل سے 2 ارب 70 کروڑ کی مالیت کے 35 کھمبے غائب
معلوم نہیں یہ جنات کی کارستانی ہے یا حضرت انسان کی۔ جنات پہ صرف اس لئے شک جا رہا ہے کہ اتنے کھمبے وہی اٹھا کر لے جا سکتے ہیں یا انہیں ماورائی طاقتوں کی بدولت غائب کر سکتے ہیں ورنہ عالم جنات میں کھمبوں کا استعمال نہیںہوتا۔ وہاں بجلی یا ٹیلی مواصلات کی فراہمی کا اپنا ہی نظام ہے جو ہمارے کھمبوں اور تاروں کا مرہون منت نہیں۔ اس لئے ہم بلاوجہ جنات پر شک کرکے انہیں اپنا جانی دشمن نہیں بنا سکتے۔ بعدازاں کیا معلوم وہ غصے میں آ کر یا الزام لگانے کے جرم میں ہمیں ہی الٹا کسی کھمبے سے لٹکا دیں۔ اس کے بعد اگر کسی پہ شک جاتا ہے تو وہ حضرت انسان ہی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کھمبے اگر فروخت کئے جائیں تو اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں۔ انسانوں کو بجلی سے زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بجلی اور مواصلات کے بغیر تو رہ سکتے ہیں‘ پیسوں کے بغیر نہیں۔ یہ کام انسانوں کا ہی ہو سکتا ہے۔ عام نہیں‘ بااثر انسان جو آنکھ سے کاجل بھی چرا لیں تو کسی کو خبر نہ ہو مگر یہ تو شاعرانہ تعلی ہے۔ یہ کھمبے تو شاعرانہ واردات نہیں‘ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہی چرائے گئے یا اتارے گئے ہونگے مگر حیرت ان لوگوں پر بھی ہے جن کے سامنے یہ کھمبے غائب ہونا شروع ہوئے اور کسی نے ایکشن نہیں لیا۔ یہاں تو ہاتھی بھی کھو جائے کسی کو اس کا سراغ نہیں ملتا۔ کاش کسی سیلفی بنانے والے دیوانے نے کھمبوں کے چوری کی بھی کوئی تصویر بنائی ہو تاکہ چوروں کا کوئی اتہ پتہ تومل سکے۔