ایک قوم ، ایک نصاب!
حکومت نے جب سے ’’ایک قوم ، ایک نصاب‘‘ کا نعرہ لگا کر ’’ سنگل نیشنل کریکولم‘ ‘ ( ایس این سی ) نافذ کرنے کی بات کی ہے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر گویا ایک بھونچال آگیا ہے جیسے حکومت سے کوئی گناہ ہو گیا ہو۔( ایس این سی )کا مطلب ہے کہ پاکستان کے تمام سکول ایک کریکولم اور ایک ہی کتب پڑھائیں گے۔ مہنگے پرائیویٹ سکولوں سے یہ برداشت ہی نہیں ہو رہا کہ ان کے سکولوں اور عام سستے سکولوں کے بچے ایک ہی کتب پڑھیں۔ لیکن اس میں برائی کیا ہے؟ ہمارے لبرل اور باہر سے تنخواہیں لینے والے ’’تھنک ٹینک‘‘ اس ’’ ایک نصاب‘‘ پر جو اعتراضات لگا رہے ہیں انہیں ’’احمقانہ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ بڑے اور مہنگے پرائیویٹ سکولوں ( جو اس بزنس کے مگر مچھ ہیں) کا کہنا ہے کہ بیرون ملک کی مرتب کردہ مہنگی کتب کے بغیر بچے اچھی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ جناب عالیٰ ایس این سی کی کتب کو ملک کے بہترین اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے تمام مکاتب فکر کے ماہرین کے ساتھ مل کر پاکستان کے نظریے اور ہماری مذہبی، معاشرتی اور قومی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا ہے۔ دوسرا ابھی صرف پانچویں یعنی پرائمری جماعت تک کے لیے ’’ ایک نصاب‘‘ مرتب کیا گیا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان پرائیویٹ سکولوں نے پہلی دوسری جماعت کے بچوں کو باہر کی کتب سے ایسی کونسی سائنس یا انگلش یا ریاضی پڑھانی ہے جو پاکستان کے ماہرین تعلیم کی مرتب کردہ کتب میں نہیں ہو سکتی؟ کیا باہر کی کتب میں کوئی نئی یا الگ ABC ہوتی ہے یا پاکستان کی کتب میں دو جمع دو پانچ لکھے گئے ہیں؟ اگر ان لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا ماہر تعلیم یا استا د نہیں جو پرائمری جماعت تک کے بچوں کے لیے نصاب مرتب کر سکے تو ہو سکتا ہے کہ ان مہنگے سکولو ں میں کوئی ایسا استاد یا ماہر تعلیم نہ ہو۔ اس صورت میں انہیں ایس این سی پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے اساتذہ کا معیار بہتر بنانا چاہئیے۔ دوسرا اعتراض جو کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایس این سی میں پاکستانی سکولوں کے اہم مسائل جیسے کہ حاضری کی کمی، اساتذہ کا معیار اور سکولوں کی فنڈنگ وغیرہ کے بارے میں بات نہیں کی گئی۔ بالکل ٹھیک۔ جناب یہ سب انتظامی معاملات ہے اور ان سب کی جانب توجہ دینا اہم ہے۔ آپ بھی اس بارے میں آواز ضرور بلند کریں لیکن اس سب کا تعلق ’’کریکولم‘‘ سے نہیں ہے اور نہ ہی نصاب کے پاکستانی یا امپورٹڈ ہونے سے ان مسائل پر کوئی فرق پڑتا ہے۔
سب سے عجیب و غریب اعتراض جو کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس ’’ ایک نصاب ‘‘ میں اسلامیات کا مضمون بچوں کو پڑھا کر بچوں کے ’’ بنیادی حقوق‘‘ سلب کیے جا رہے ہیں اور یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 22 کے خلاف ہے۔ در اصل ’’ ایک قومی نصاب‘‘ کی مخالفت کرنے والے دو بڑے گروپ ہیں۔ ایک ہمارے لبرل اور بیرون ممالک کے تنخواہ دار اینکر اور تھنک ٹینک اور دوسرا مہنگے پرائیویٹ سکول۔ ان میں سے پہلے گروپ کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اس نصاب میں قرآن اور سنت کی تعلیم شامل ہے جبکہ انکے آقائوں کا حکم ہے کہ پاکستان کے بچوں کو ا سلامی تعلیم نہیں ملنی چاہئیے۔ یاد رہے کہ 2006 ء کے نیشنل کریکولم میں کہا گیا تھا کہ اسلامیات کا مضمون ’’ جنرل نالج‘‘ کے تحت پڑھایا جائے گا۔ جبکہ اب ’’ ایک قومی نصاب ‘‘ میں اسلامیات کو ایک الگ مضمون کا درجہ دیا گیا ہے۔ اگر آپ نے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ میں اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم نہیں دینی تو یہ ملک بنایا ہی کیوں تھا؟ ہم میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کے بچے مسلمان نہ ہوں؟ رہا سوال آئین پاکستان کے آرٹیکل 22 کا تو اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی بچے کو اس کے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تعلیم زبردستی نہیں دی جائے گی۔ بالکل درست، ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ لیکن اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ غیر مسلم بچوں کو زبردستی اسلامی کتب نہیں پڑھانی( اور ایسا ہے بھی نہیں)۔ ا ب یہ بہانہ بنا کر مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان بچوں کو بھی اسلامی تعلیم نہ دی جائے۔ یہ کوئی عقلی یا منطقی مطالبہ ہے؟ ان خود ساختہ صحافیوں اور ’’ ماہرین تعلیم ‘‘ کو کوئی یہ تو بتائے کہ جن غیر مسلم مغربی ممالک کے یہ گن گاتے ہیں ان میں سے اکثر، جیسے برطانیہ ، فرانس، اٹلی ، ہنگری، آئرلینڈ، جاپان، کوریا، ناروے ، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، سپین اور سنگاپور، ان سب ممالک میں ’’ سنگل کریکولم‘‘ ہے۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر ممالک بشمول برطانیہ کے سکولوں میں پانچ سال کی عمر سے بچوں کو لازمی مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس بارے میں تو کسی نے کبھی نہیں کہا کہ ان ممالک میں بچوں کے ’’ بنیادی حقوق‘‘ سلب کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے مہنگے پرائیویٹ سکول جب اپنی ’’امپورٹڈ کتب ‘‘ میں ہمارے بچوں کو رام، بھیم اور سینٹ پال کے قصے پڑھاتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
دوسرا ’’معترض گروپ‘‘ پرائیویٹ سکولوں کا ہے ۔ ان کے دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے کچھ باقاعدہ ایک ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد ہی ہماری مذہبی ، معاشرتی اور قومی اقدار کا قتل ہے۔ باقیوں کے اعتراض کی وجہ معاشی ہے۔ میرے ایک دوست نے گزشتہ برس ایک مہنگے پرائیویٹ سکول میں پہلی جماعت میں پڑھنے والے اپنے بچے کی کتب کا سیٹ ساڑھے نو ہزار کا خریدا تھا۔ اب اسی بچے کی دوسری جماعت کی تمام کتب اسے لگ بھگ ایک ہزار میں مل گئی ہیں۔ غیر ملکی پبلشرز کی کتب بھی چھپتی تو پاکستان میں ہی ہیں، بس پبلشر کے نام کی وجہ سے ان کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوتی ہے۔ اب باقی کے 8500 روپے کی بندر بانٹ کیسے ہوتی ہے؟ پبلشر اور بک ڈپو والے کو کتنے ملتے ہیں اور پرائیویٹ سکول مالکان کو کتنے؟ اگر اس بارے میں تحقیق کر لی جائے تو بہت سے پرائیویٹ سکولوں کا ایک نصاب کے بارے میں اعتراض ہماری سمجھ میں بھی آ جائے گا اور ختم بھی ہو جائے گا۔
قوم کے بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ ’’ ایک قومی نصاب‘‘ بہتری کی جانب صرف پہلا قدم ہے جس میں ’’سٹوڈنٹ لرننگ آبجیکٹوز‘‘ (ایس ایل اوز) اور TIMMs جیسے جدید طریقے اور ’’ لائف سکلز‘‘ میانہ روی اور برداشت سکھانے کی جانب بھی توجہ کی گئی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس ’’ ایک نصاب ‘‘ کو ملک میں موجود 25000 مدرسوں اور اڑھائی لاکھ چھوٹے سکولوں میں بھی نافذ کیا جا رہا ہے اور اس میں اساتذہ کی تربیت کا وعدہ اور طریقہ کار بھی ہے۔ پھر بھی سفر لمبا اور منزل ابھی دور ہے۔ یہ بالکل درست کہ ابھی ’’ اساتذہ کے معیار‘‘ اور سکولوں میں بہت بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے5 تا 16 برس کے 228 ملین بچے سکول نہیں جاتے۔ لیکن کیا ’’ ایک نصاب‘‘ ختم کرنے سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے؟ ’’ ایک قومی نصاب ‘‘ کوئی صحیفہ کہ نہیں جس میں بہتری یا تبدیلی کی گنجائش نہ ہو ۔ اگر اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسکے خاتمے کا مطالبہ کرنے کی بجائے اس پر ’’ مثبت تنقید‘‘ کریں اور آنے والے وقت میں اسے بہتر سے بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز دیں۔