’’آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے‘‘
آخر کار وہی ہوا جو زندگی کا آخر کار ہے ۔ کشمیر جنت نظیر سے پچھلے دنوں تحریک آزادی کشمیر کے یہ مجاہد سید علی گیلانی عمر عزیز 92ویں برس گذار کر جنت الفردوس کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ان کی عمر کی طرح ان کی ہندو سامراج کی قید بھی خاصی لمبی تھی ۔
1947ء میں مسلم کانفرنس کی اعلیٰ لیڈر شپ ، چوہدری غلام عباس اور میر واعظ یوسف شاہ کی پاکستان ہجرت کے بعد شیخ عبداللہ کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے والا کوئی موجود نہ رہا۔ پھر 1975ء میں اندرا گاندھی کے’’ شیر کشمیر‘‘ شیخ عبداللہ کے ساتھ سمجھوتے کے بعد سبھی دانا ، سبھی سر ڈال کے چپ بیٹھ رہے ۔ لیکن یہ سید زادہ علی گیلانی ایسا نہ کر سکا۔اب کشمیر میں بھارت مخالف سیاست کو ان کی شکل میں ایک سر پرست ہاتھ آگیا۔ان کی تقریر کا آغاز ہمیشہ انہی جملوں سے ہوتا ۔ ’’میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے نام نہاد الحاق کو نہیں مانتا۔ میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں۔ اس بغاوت کے جرم میںمجھے پھانسی کا پھندا بھی چومنا پڑے تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا‘‘۔ بڑے لوگوں کو تاریخ میں اپنے نام کی بڑی فکر رہتی ہے ۔ بھٹو کی طرح نہرو کو بھی تاریخ میں اپنے نام کا ہمیشہ خیال رہا۔ آخر قوموں کی برادری میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ اسی کشمیری نژاد لیڈر نے کیا تھا۔ اپنے آخری دنوں انہوںنے شیخ عبداللہ کو پاکستان صدر ایوب کے پاس مسئلہ کشمیر کے کسی آبرو مندانہ حل کیلئے بھیجا۔یہ مشن نہرو کی بے وقت موت کے باعث نا تمام رہ گیا۔ شیخ عبداللہ کو اسے ادھورا چھوڑ کر ہندوستان لوٹنا پڑا۔ اپنے اسی پاکستان کے دورے میں راولپنڈی لیاقت باغ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا تھا۔
؎کسی کے آگے نہ خم ہو سکی میری گردن
کسی جگہ میری آواز آج تک نہ دبی
شیخ عبداللہ کاجلسہ عام میں سنایا ہوا یہ شعر شیخ عبداللہ کی نسبت سید علی گیلانی کے زیادہ حسب حال ہے ۔ شعلہ بیان خطیب سید علی گیلانی کی موت سے پیدا ہونے والا خلاکبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ نے آزادی کشمیر کے متوالوں کو بھی بہت مایوس کیا تھا ۔ ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ۔ ایسے نا امید ی کے عالم میں اس بہادر آدمی کی آواز گونجی ۔ ’’پاکستان اگر خدا نخواستہ موجودہ حالات میں اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ وہ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول میں ہماری مدد کر سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے حق سے ہی دستبردار ہو جائیں جبکہ ہماری مدد کیلئے خود ہمارا خدا موجود ہے ‘‘۔ اسی طرح سید علی گیلانی نے ’’بہت سا وقت گزر گیا ہے ‘‘ جیسی مضحکہ خیز دلیل کا بڑا موثر جواب اپنے ایک مکتوب میں دیا۔ ’’ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ 1947ء کے بعد چونکہ دریائے جہلم کا بہت سا پانی بہہ چکا ہے اسلئے اب کشمیری عوام کو آزادی اور حق خود ارادیت کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں ۔ کیا دریائے جہلم کے پانی کے ساتھ لوگوں کے حقوق بھی بہہ گئے ہیں ‘‘؟انہیں پاکستان سے بہت محبت تھی ۔ وہ کشمیر بنے گا پاکستان ‘ کی سیاست کے داعی تھے ۔ پاکستان سے بے پناہ محبت کا باعث ان کا مذہبی رحجان بھی تھا۔ پہلی مرتبہ وہ 1972ء میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ہی پہنچے تھے ۔ پھر وہ بہت جلد اس کے جنرل سیکرٹری بھی بن گئے۔ پھر کیا ہوا ؟ لمبی کہانی ہے ۔ ایک بات بڑی اہم ہے ۔ان کی پاکستان سے شدید محبت کا اندازہ اس سے لگائیں ۔ ایک تقریر میں وہ جوش خطابت میں کہنے لگے ۔ ’’جب قدرت کی رحمت سے ہم دریائے جہلم کی اچھلتی اور اٹھلاتی لہروں کی طرح پاکستان کے حدود کے ساتھ آغوش ہو جائیں تو ہماری قبروں پر آکر یہ مژدہ روح پرور سنا دیناتاکہ عالم برزخ میں ہماری ارواح سکون اور طمانیت سے ہمکنار ہو سکیں‘‘۔ لیکن وہ وقتاًفوقتاً پاکستان میں جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر بہت دکھی بھی ہوتے تھے ۔ ان کے داماد اخبار نویس افتخار گیلانی نے لکھا۔ نومبر 1996ء میں جب بینظیر حکومت کو برطرف کیا گیا تو انہوں نے فون پر امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو جمہوری حکومت کی برطرفی پر خوب سنائیں۔ اس مرحلہ پر علی گیلانی کے سیکرٹری نے انہیں بتایا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ، آپ کیوں اس معاملے میں پڑتے ہیں ؟ انہوں نے جھٹ سے کہا۔ ’’پاکستان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں‘‘۔ کالم نگار سوچ رہا ہے کہ کیا ان کا ہمارے فوجی حکمرانوں سے گزارہ ممکن تھا ؟ مجید نظامی کے جنرل ایوب خاں، جنرل یحییٰ خاں ،جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کے ساتھ جرات مندانہ مکالمے تاریخ کا حصہ ہیں۔ نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد ۔ لیکن مجید نظامی ان حکمرانوں کو تلخ حقائق سنائے بغیر نہ رہتے ۔ اگر وقت وفا کرتا تو مجید نظامی کی طرح سید علی گیلانی کے بھی سبھی پاکستانی حکمرانوں سے بہت سے مزے کے مکالمے تاریخ میں محفوظ رہتے۔ حکمران ، حکمران ہوتے ہیں فوجی ہوں یا سویلین۔
سیدعلی گیلانی کی صدر پرویز مشرف سے صرف ایک ملاقات ہو سکی ۔ صدر پرویز مشرف انڈیا دورے پر تھے ۔ سید علی گیلانی پاکستان ہائوس میںاپنے وفد کے ہمراہ ان سے ملاقات کو پہنچے ۔وہاں صدر مشرف نے صرف انہی سے ہاتھ ملانے پر اکتفاکیا۔سید علی گیلانی کو صدر مشرف کا اپنے وفد کے دیگر ارکان سے ہاتھ نہ ملانا بہت برا لگا۔ وہ کرسی پر بیٹھنے سے قبل ہی ان کا حساب چکاچکے تھے۔کہنے لگے: ’’یہ داڑھی والا نوجوان نور احمد جو میرے ساتھ ہے پوسٹ گریجوایٹ ہے ۔ آپ ان سے ہاتھ ملائیں گے تو آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے ‘‘۔