مادرِ مہرباں
6 ستمبر کی شام یومِ شہداء اور یومِ دفاع کی خصوصی تقریب میں جب پروگرام کے آغاز میں میرے لکھے ہوئے قومی گیت ’مادرِ مہربان‘ کی پیشکش کا اعلان کیا گیا تو میرا ذہن یک دم نومبر 2020ء کی اس شام کی طرف چلا گیا جب آئی ایس پی آر کی ٹیم اس قومی گیت کا آئیڈیا لے کر پہلی مرتبہ میرے گھر تشریف لائی تھی۔ یہ آئیڈیا بیک وقت اتنا نیا اور تجرباتی تھا کہ مجھے اس کی نوعیت اور اس کی فارم کو سمجھنے کے لیے آئندہ دو ماہ میں ان سے مزید کئی ملاقاتیں کرنا پڑیں۔
کسی قومی گیت میں وعدے اور ورثے کے حوالے سے پرانی اور نئی نسل کو یکجا کرنا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی شکل میں پیش کرنے تک تو بات آسان تھی مگر یہ پابندی کے سینئر اور جونیئر گلوکاروں میں براہ راست خونی رشتہ بھی ہو کہ باپ یا ماں کے ساتھ ان کا سگا بیٹا یا بیٹی مل کر اپنے حصے کے بند کو گائیں اور اس کے ساتھ ساتھ شاعری کے حوالے سے اس کی بحر، ردیف، قافیہ اورمصرعوں کی ترتیب اس کی کمپوزیشن اور بانٹ میں بھی برابری ر ہے اور یہ کہ ہر بند میں سینئر نسل وعدے اور جونیئر نسل ورثے کی حفاظت کا اعلان کرے ،ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔ خیر اللہ کا نام لے کر اس تھیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے تین چار ابتدائی لائنیں جنہیں موسیقی کی زبان میں استائی کہا جاتا ہے ترتیب دیں جن میں ’ہم تیرے ہم قدم، ہم تیرے ہم زباں... اے زمینِ وطن، مادرِ مہربان‘ کو زیادہ پسند کیا گیا۔
اسی اثنا میں پاکستان کے تمام بڑے اور نامور گلوکاروں سے آئی ایس پی آر کے ماہرین کا رابطہ جاری رہا جبکہ دوسری طرف میں اور کمپوزر ساحر علی بگا اس کی کمپوزیشن کے حوالے سے مختلف طرح کے تجربات میں مصروف رہے۔ میرا مشورہ تھا کہ اس گیت کی تھیم، اس کا مزاج اور اس کی مخصوص پابندیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ اس میں نفس مضمون اور میلوڈی کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ پوری ٹیم نے میری اس بات سے اصولی طور پر اتفاق کر لیا۔
اس گیت کے تین بند ہیں جنہیں بالترتیب شفقت امانت علی اور ان کے بیٹے سادات، سجاد علی اور ان کی بیٹی ضو علی، اور عابدہ پروین اور ان کے صاحبزادے سارنگ لطیف نے گایا ہے۔ فارم کے لحاظ سے میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا کہ جس لائن پر سینئر گلوکار ختم کرے اس کے جونیئر کی اگلی دونوں لائنیں بات کو اس طرح سے آگے بڑھائیں کہ ان میں قافیے کو برقرار رکھا جائے کہ یوں نہ صرف ان کی نغمگی میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے اگلی چاروں لائنوں کے ردھم اور موسیقیت میں بھی اضافہ ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور یوں وعدے کے تسلسل کو، ورثے کی شکل میں آگے بڑھانے کا آئیڈیا نومبر 2020ء میں ایک پودے کی شکل میں سامنے آیا تھا اور وہ دس ماہ کے اندر ایک تناور اور سایہ دار درخت کے روپ میں ڈھل گیا۔ یوں ہم قوم کے سامنے ایک ایسے گیت کو پیش کر پائے جس میں ہماری تاریخ، قومی امنگیں، نئی اور پرانی نسل کی ہم آہنگی اور وہ خوبصورت مستقبل یک جان ہو گئے جس کی خاطر ہمارے لوگوں نے وردی میں اور وردی کے بغیر بھی بے شمار قربانیاں دی ہیں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ آئی ایس پی آر کی اس خوبصورت اور بامعنی پیش کش میں مجھے بھی اپنی بساط بھر حصہ ڈالنے کا موقع ملا ہے۔ یقینا ڈی جی آئی ایس پی آر، ان کی ٹیم اور وہ سب لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے کسی بھی شکل میں اس کی تکمیل میں ہاتھ بٹایا ہے۔ آج ہم سب بھی ایک کورس کی شکل میں ان گلوکاروں کی آواز میں آواز ملا کر یہی کہنا چاہتے ہیں کہ
ہم تیرے ہم قدم، ہم تیرے ہم زباں
اے زمینِ وطن، مادرِ مہرباں