خواتین کی تعلیم اور ہوم اکنامکس کالج

جس قوم میں جتنی زیادہ پڑھی لکھی خواتین ہوں گی وہ قوم اتنی ہی مہذب ہو گی‘ پڑھی لکھی ہنر مند ماں معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم کو آج بھی ثانوی حیثیت حاصل ہے۔معمولی معمولی سے اقدامات کر کے خواتین کی تعلیم کو مؤثر بنایا جاسکتا ہے ۔جنوبی پنجاب میں کچھ سال قبل محض طالبات کو دو سو روپے وظیفہ دینے کا آغاز کیا گیا تو تمام سرکاری سکول طالبات سے بھر گئے اسی طرح مفت کتابیں فراہم کرنے کااقدام بھی بڑا حوصلہ افزا رہا ‘لیکن مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ تعلیم کو سستا اور عام کرنے کی بجائے بعض اداروں میں اپ گریڈیشن کے نام پر مہنگا کر دیا گیا ہے اس سے بہت سارے سفید پوش والدین اپنی بچیوں کو تعلیم نہیں دلوا سکیں گے اس کی ایک مثال ہوم اکنامکس یونیورسٹی ہے ہوم اکنامکس کالج لاہور‘ گورنمنٹ آف پاکستان، فورڈ فاؤنڈیشن ، اور اوکلاہوما اے اینڈ ایم کالج ڈویژن برائے ہوم اکنامکس کی مشترکہ کوشش تھی ہوم اکنامکس کالج سے ہزاروںکی تعدادمیں سٹوڈنٹس نے بی ایس، سینکڑوںنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ ہوم اکنامکس کالج سے تعلیم‘ حاصل کرنے کے بعد خواتین ملک میں ماہر تعلیم نامور بزنس وومن،غذائی ماہرین،سیاست دان، ڈیزائنرز، سکول کے منتظمین، بیوروکریٹس اور کیریئر کاونسلر کے طور پر کام کر کے اہم کردار ادا کر رہی ہیںیہ کالج 1955 میں باضابطہ طور شروع کیا گیا تھا۔ پاکستان کے لحاظ سے یہ واحدادارہ ہے جو موجودہ حکومت کے منشور سے مطابقت رکھتاہے خواتین کی ہنر مند تعلیم کی اپ گریڈیشن جدیددور کی اہم ضرورت ہے یہ پہلا ہنر پر مبنی ، باضابطہ تعلیم کا نظام تھا جو پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے پر مرکوز تھا۔ ہوم اکنامکس ایک ایسا شعبہ ہے جو افراد ، کنبوں ، اور معاشروں کو مستحکم کرتا ہے یہ سائنسی اور سماجی علومکے ساتھ منسلک ہیاور جدید دور کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موجودہ حکومت تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی ہنر مند تعلیم کو عام کر نا چاہتی ہے اور عورتوں کے حقوق یعنی ویمن امپاورمنٹ کو اہمیت دیتی ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں زندگی کے 1000 دن کی اہمیت اور malnutrition کا خاص طور پرتذکرہ کیا تھا۔نیوٹریشن کی تعلیم 1955 سے کالج آف ہوم اکنامکس دے رہا تھا۔نیوٹریشن کی طالبات اس میدان میں ریسرچ اور تحقیق کرتی رہی ہیں۔
علاوہ ازیں حکومت خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے رہی ہے۔کالج آف ہوم اکنامکس میں خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کے لئے ایک بہترین مرکز موجود ہے جہاں تمام تربیت یافتہ عملہ بچوں کی نگہداشت اور تربیت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور ایکٹ 2017 (ایکٹ VII آف 2017) نے پیراڈیم کو تبدیل کیا۔ اس نے کالج کو تمام پروگراموں ، انفراسٹرکچر اور تعلیمی عملے کوبری طرح متاثر کیا۔ کالج کی تنظیم نو نے ہوم اکنامکس کی تعلیم اور اس کی علمی اور معاشرتی شراکت کے پورے مقصد ، روح اور فلسفہ کو نظرانداز کیا اور آخر کار اسے ختم کردیا۔ تنظیم نو نے بی ایس پروگرام اور ماہرین تعلیم اور تحقیق کی پانچ اہم ہوم اکنامکس کے شعبہ جات کو گرہن لگادیا۔
یہاں تک کےlogo بھی بدل گیا ہوم اکنامکس ڈگری کا نام بھی تبدیل کردیا گیا۔ یونیورسٹی بننے سے تعلیم عام ہونے کی بجائے با قی تمام یو نیورسٹیز کی طرح مہنگی اور مخصوصکر دی گئی۔ گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کی فیس بھی 16000 سے 95000 کر دی گئی۔ یہ ادارہ متوسط طبقے کو تعلیم دے رہا تھا اور خاندان کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد ہوم اکنامکس کے مضمون کو فیملی اینڈکنزیومر سائنسزکا نام دیا گیا۔ 5 شعبہ جات پہ مشتمل کالج کو ایک چھوٹا ساڈیپارٹمنٹ بنا دیا گیا ہے ۔
اس ادارے میں 2500 طالبات بی ایس ہوم اکنامکس کی ڈگری حاصل کرتی تھیں(جو 5 مضا مین کا مجموعہ ہے)اب ہوم اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد 300 سے بھی کم ہے۔ ہوم اکنامکس کے5 ڈیپارٹمنٹس پر مشتمل پوسٹ گریجویٹ کالج کومحض1 ڈیپارٹمنٹ تک محدود کر دینا کیایہ ہوم اکنامکس کی ترقی ہے؟کیا اس میں ہوم اکنامکس کی تعلیم عام کی جا رہی ہے؟آخر ایسے ادارے کو کیوں ختم کردیا گیا جو دنیا کی ضرورت کے عین مطابق تھا؟گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس ، گلبرگ ، لاہور میں 134 کنال رقبہ پر خاص طور پرہوم اکنامکس کے مقصد سے بنایا ہوا کیمپس ہے جس میں بی ایس ہوم اکنامکس پروگرام پانچ مختلف شعبوں کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ 1۔ فوڈاینڈنیوٹریشن2۔ٹیکسٹائل اینڈ کلو دنگ (Clothing and Textile)3۔ آرٹ اینڈ ڈیزائن 4۔ ہوم مینجمنٹ اینڈ انٹیریر ڈیزائن5۔ہیومن ڈیویلپمنٹ اینڈ فیملی سٹڈیز۔سائنسی اور سماجی مضامین ہوم اکنامکس کے شعبے کو ایک بین الاقوامی اور جدید تعلیمی نظام بناتے ہیں بی ایس پروگرام کے علاوہIOWA State University سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ان ڈائٹیٹکس،آرٹ اینڈ ایجوکیشنڈپلومہ بھی اس کالج کے نصاب کا حصہ ہیں۔
ہوم اکنامکس ایک منفرد ادارہ تھا پچھلے 65 سالوں میں ایک بھی ادارہ اس طرز کا نہیں بن سکا۔ خواتین کی بہبود کیلئے کالج کو ختم کرنے کی بجائے مزید ایسے کئی ادارے بنانے چاہئیں تھے۔
کالج آف ہوم اکنامکس ، گلبرگ ، لاہور پاکستان میں ایک ورثہ کی یادگار ہے ، جس کی الگ تاریخ ہے جوپاکستان کے کسی بھی عام تعلیمی کالج سے موازنہ نہیں رکھتی ۔ انٹر نیشنل فیڈریشن آف ہوم اکنامکس جس کی نمائندگی UN میں بھی ہے،جدید دور کے sustainable development goals کو حاصل کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
پورے پاکستان سے طالبات اور ہوم اکنامکس کی سابقہ طالبات کی جانب سے حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس کو ایک کالج کے طور پر خواتین کی ایجوکیشن کے لئے ایک بہترین مرکز کے طور پر بحال کیا جائے۔ کالج کی انفرادیت کو برقرار رکھا جائے۔