آج حزب اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں۔ اپوزیشن کی نظر میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ان کا نقطہ نظر ہے۔ آزادی اظہار کا زمانہ ہے اور سیاست دانوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مکمل آزادی ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کو ناکام قرار دیتی ہیں تو کیا انہوں نے اپنی کارکردگی دیکھی ہے۔ کیا موجودہ اپوزیشن کو کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت کامیاب نہیں ہے تو اپوزیشن بھی ناکام ہی ہے۔ بلکہ اپوزیشن حکومت سے زیادہ ناکام ہے۔ کیونکہ حکومت کے غلط فیصلوں کو عوامی سطح پر منطقی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن عوامی سطح پر حکومت کے غلط فیصلوں پر رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور جتنی مہنگائی ہو چکی اس کا واپس آنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ساری اپوزیشن مل کر بھی سب سے بڑے اور اہم عوامی مسئلے کو بھی عوامی سطح پر اٹھانے اور تحریک چلانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان اکیلے ہی تھے لیکن انہوں نے دھاندلی اور مہنگائی کے مسئلے کو زندہ رکھا اور عوام کے جذبات کو ابھارتے رہے کہ امراء کا طبقہ ریاست کے وسائل پر قابض ہے اور عوام کا خون چوس رہا ہے۔ عمران خان اکیلے تھے، ان کی جماعت کے ساتھ کسی کا الحاق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے عوامی سطح پر ہمیشہ بنیادی مسائل کو اجاگر کیا اور آج بھی وہی مسائل سب سے بڑے مسائل سمجھے جاتے ہیں۔ گوکہ آج حزبِ اختلاف کی زیادہ جماعتیں متحد ہیں لیکن انہوں نے ماضی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عام آدمی کے مسائل کو نظر انداز کر کے ذاتی نوعیت کے مسائل پر سیاست کی جا رہی ہے اور اس حکمت عملی سے ناصرف عوام نظام سے بددل ہوئے ہیں بلکہ ان کا سیاست دانوں سے اعتماد بھی کم ہوا ہے۔ چونکہ عوامی مسائل پر سیاست نہیں کی گئی اور آج چوتھا سال شروع ہو چکا ہے لیکن حکومت کو اندرونی سطح پر خراب کارکردگی کے باوجود اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ہی لے لیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر نظر آتی ہیں۔ لیکن اپوزیشن کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے ان کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ اپنی اپنی خبریں بناتے رہتے ہیں اور اچھے بھلے، سمجھدار اور تجربہ کار سیاستدان یہی سمجھتے ہیں کہ بیانات جاری کرنا ہی اصل اپوزیشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹا، چینی، دالیں، گھی، آئل، سبزیاں، پھل، ادویات سمیت زندگی سے تعلق رکھنے والی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے جیسے یہ چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں لیکن عوام کے ہمدردوں کے لیے صرف بیان جاری کرنا ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مہنگائی پر ایک نمائشی احتجاج کیا ہے۔ اس احتجاج کی حیثیت کیا ہو سکتی ہی بہرحال جتنی اس کی حیثیت اور طاقت ہے اس اعتبار سے پی پی پی نے ٹھیک میلہ لگایا ہے۔ اس احتجاج کی خبر کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے آبپارہ چوک پر مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں پی پی کے عہدیداران اور کارکنان میں شریک ہوئے۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پی پی رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ "موجودہ نا اہل حکومت نے غریب عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے، آٹا، چینی، ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ اس تحریک کو ملک کے کونے کونے میں پھیلائیں گے اور اِس حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے آج سے ملک بھر میں مہنگائی اور بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا"۔
اب کیا پاکستان پیپلز پارٹی اتنے سے احتجاج کے ساتھ تبدیلی کی خواہش مند ہے تو پھر انہیں اپنی سیاست اور قیادت پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ایسے احتجاجوں سے حکومت کو فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک بڑی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے اسے بنیادی مسائل پر تو کم از کم جارحانہ سیاست کرنی چاہیے، مسلم لیگ نون کے پاس بھی چند چہرے ہیں جو صرف میڈیا پر بیان بازی کو اپوزیشن کا کردار سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ ان کے پاس بجی شاید وہ عوامی طاقت یا سٹریٹ پاور نہیں ہے جس کی بنیاد پر حکومت کو دباؤ میں لایا جا سکے یہی وجہ ہے کہ ہوش ربا مہنگائی کے باوجود بھی مسلم لیگ نون لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہی ہے۔ کبھی کبھار پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر دباؤ بناتے ہیں اور پھر چند گھنٹوں بعد وہ دباؤ ختم ہو کر کہیں اور نکل جاتا ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کا کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان جماعتوں میں کچھ لوگ انفرادی طور پر تو نمایاں نظر آئیں گے لیکن اجتماعی طور پر کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ میاں نواز شریف کوئی اور حکم جاری کرتے ہیں تو میاں شہباز شریف اس کی مخالفت کر دیتے ہیں۔ اس طرح پارٹی پوزیشن، موقف نظر آتا ہے۔ جب حکومت کو یہ علم ہے کہ ان کا تو ہاؤس ہی ان آرڈر نہیں ہے تو اسے بھی چیزیں مہنگی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا وہ بھی آنکھیں بند کر کے مہنگائی میں مصروف ہیں۔ اس لیے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے والی اپوزیشن کو اپنا احتساب بھی کرنا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024