لداخ میں چین 38ہزار کلومیٹر رقبے پر قابض
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور خصوصاً لداخ کے دہلی حکومت کے زیر تسلط آتے ہی چین نے بھارتی اقدام پر اعتراض کیاتھا۔ مودی حکومت کے پاس خفیہ اطلاعات تھیں کہ چین لداخ میں بہت کچھ کربھی رہا ہے اوربہت کچھ کرنے والا بھی ہے تاہم مودی سرکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہی۔ اب یہ سوال توسب سے اہم ہے اور بھارتی عوام اپنی حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ چینی فوجی بھارت کے علاقے میں کب داخل ہوئے؟ دو جون 2017 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کے سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں کہا تھا ۔ چین اور بھارت میں سرحدی تنازع کے باوجود پچھلے چالیس سال میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بھی گولی نہیں چلی ۔ چین نے بھی مودی کے اس بیان کا خیرمقدم کیا تھا۔ یہ تین سال پہلے کی بات ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ سرحد پر نہ صرف فائرنگ ہو رہی ہے بلکہ فوجی ہلاک بھی ہو رہے ہیں۔ ہاں اب مودی یہ بات دوبارہ نہیں کہہ سکتے۔ کیا وزیر اعظم مودی کوعلم نہیں تھا کہ چین بھارت کی طرح انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگلے پانچ سال کیلئے پالیسیاں نہیں بناتا بلکہ وہ اگلے پچاس سال کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی پر کام کرتا ہے اور اسے انجام تک پہنچاتا ہے۔
1993 ء میںبھارتی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان ایل اے سی کا تعین ہوا لیکن ایل اے سی ریت پر کھینچی لکیر ہے۔ چینی فوجی تھوڑی سی ہوا دیتے ہیں اور لکیر مٹ جاتی ہے۔ پھر آپ لکیر کر ڈھونڈتے رہیے۔ بھارتی حکومت کو تو پتھر پر لکیر کھینچنی تھی اور یہ کام اس نے نہیں کیا۔لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) دونوں ممالک کے درمیان متنازع سرحد ہے جس کی حد بندی مناسب طریقے سے نہیں ہوئی۔ دریاؤں، جھیلوں اور برف سے ڈھکی پہاڑیوں کی وجہ سے لائین بدلتی رہتی ہے۔ اسی لیے ایک طرف تو مودی کہتے ہیں کہ چین بھارت کی سرحد نہیں ہے تو دوسری طرف سرحدی معاملات پر ملاقات پر ملاقات جاری ہے۔ مودی حکومت کو تو پہلے اپنے ہی متضاد بیانات سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔بھارت اور چین کے درمیان اس سال اپریل سے سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی ۔ پندرہ جون کو پرتشدد جھڑپ میں بیس بھارتی فوجی ہلاک بھی ہوئے۔ اس کے بعد سے کہا جا رہا ہے کہ چینی فوج لداخ کے ان علاقوں میں قابض ہو گئی ہے جو اب تک بھارتی عملداری میں تھے۔چین لداخ سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ یہ اس نے اچانک نہیں کیا ہے بلکہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہو اور دونوں ممالک کے درمیان خطرناک تصادم بھی ہو سکتا ہے۔ چین بھارت کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے لیکن سرحدی تنازع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔اب سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا چین سرحد پر اپریل سے پہلے والی صورتحال بحال ہونے دے گا یا ایک بار پھر سے سرحد کو بدل دے گا۔ چین بھلے ہی ملاقاتیں اور مذاکرات کر رہا ہے لیکن وہ بھارت کو دھمکی بھی دے رہا ہے۔ چین نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پورا ارونا آنچل پردیش اس کا ہے کیونکہ اس نے اسے کبھی بھارت کا حصہ تسلیم ہی نہیں کیا۔یوں بھارت کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ روس میںچین کے وزیر دفاع سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈو ڈھل سے بھی چینی وزیر دفاع کے مذاکرات ہوئے۔دونوں ممالک کے درمیان فوجی سطح پر بات چل رہی ہے لیکن اب تک چین اس بات پر راضی نہیں ہوا کہ آیامشرقی لداخ میں اپریل سے پہلے والی صورتحال کو بحال کیا جائے گا یا نہیں۔بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی چینی ہم منصب سے ملاقات میں حالات بہتر ہونے کی امید کی جا رہی تھی لیکن وہاں دونوں میں تلخی بڑھتی نظر آئی ۔دورہ ماسکو کے بعد بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں بتایا کہ مشرقی لداخ میں بھارت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ چین غیر قانونی طورپر لداخ کے 38 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اروناچل پردیش میں ہند چین سرحد کے مشرقی حصے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر دعویٰ کررہاہے۔ بیجنگ نے ایل اے سی پر بڑی تعداد میں فوج ، گولہ بارود اکٹھا کر رکھا ہے۔ہندوستان اور چین کے درمیا ن 45 سال میں پہلی بار فائرنگ کے تبادلہ کی اطلاعات آئی ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمزنے ہندوستانی افواج پر پینگانگ تسو کے جنوبی کنارے پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے۔چینی میڈیا نے الزام لگایا کہ جب چینی فوج کی گشتی پارٹی ہندوستانی جوانوں سے بات چیت کرنے کے لئے آگے بڑھی تو انہوں نے جواب میں فائرنگ شاٹ کئے گئے۔ جبکہ بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے ہندوستانی خطے میں پہلے فائرنگ کی گئی جس کے بعد ہندوستان کی طرف سے جوابی کارروائی ہوئی۔بھارت کے مطابق چینی فوج کے اہلکار ایل اے سی پر بھارت کی حدود میں واقع ایک علاقے کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب بھارتی فوجیوں نے ان کا پیچھا کیا تو انھوں نے ہوائی فائرنگ کر کے فوجیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی اخبارات کا کہنا ہے کہ بھارت نے مشرقی لداخ میں عملاًچینی بالادستی تسلیم کر لی ہے۔ چین نے بھی کمپنی شین جھیک انفوٹیک اور شنہوا انفوٹیک کے ذریعے پورے بھارت پر نظر رکھی ہوئی ہے ۔ بھارتی وزارت داخلہ ، خارجہ اور دفاع کے حکام کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ ہورہی ہے ۔