یہ فیصلے کی گھڑی ہے
کردل گائوں ، سگتیاں گائوں ، عینو بھٹی جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اس کے قریب ہی لکھوڈیرہ کا علاقہ ہے جو بدمعاشوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے تاہم تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس علاقے کے جرائم پیشہ اور بدمعاش افراد کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتی رہی ہیں ۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اب بھی لکھو ڈیرہ کا ایک بڑا سیاسی نام اس معاملے کی ملزمان کی پشت پناہی کیلئے کھڑا ہے ۔گزشتہ دنوں ثنا نامی خاتون کے ساتھ رات 2 بجے موٹر وے پر المناک واقعہ پیش آیا ۔ اس سے محض تقریباً 12گھنٹے قبل اسی گجر پور ہ تھانے کی گجر پورہ پولیس چوکی کے علاقے میں ہی میاں عبدالرحمن نامی ایک شخص کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا تھا ۔ ثنانامی خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ بھی موٹروے سے ایک جانب اسی جنگل میں ہوا ۔ میاں عبدالرحمان کا قتل 8 ستمبر موٹرو ے کے ساتھ والے اسی جنگل یا ویرانے میں ہوا،لیکن پولیس نے اس کے باوجود علاقے کی اراضی نگرانی کا اہتمام نہ کیا ۔ یکم جولائی کو سولہ سترہ سالہ نرس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی لرزہ خیز واردات اسی موٹروے سے آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ہوئی اور یہی پولیس چوکی لگتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ ترین سطح پر پولیس میں سیاست کا دخل سپریم کورٹ کے بھی علم میں ہے ، جبکہ نچلی سطح پر سیاسی اثر ورسوخ سے پولیس کے آج تک آزاد نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر ، قانون اور عدالت سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ عام طورپر سیاسی جماعتیں ایسے عناصر کی سرپرستی کررہی ہوتی ہیں ۔مقامی ذرائع کے مطابق موٹروے کا ایک ایسے علاقے سے گزرنا جہاں دریا ئے راوی کا روایتی بیلا وار دونوں اطراف طویل جنگل پایا جاتا ہے ۔ خصوصی سیکورٹی انتظامات کے بغیر موٹر وے کو کھول دیا جانا خالصتاً حکومتی عدم دلچسپی اور پولیس حکام کی غفلت کا ثبوت ہے کہ موٹروے پر ٹیکس لینے کا سلسلہ تو شروع کردیاگیا لیکن شہریوں کی عزت جان ومال کا تحفظ کرنے کے بجائے انہیں مقامی جرائم پیشہ سیاست دانوں اور ان کے لاڈلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ۔یوں بیلے اور جنگل کو جرائم کیلئے استعمال کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کیلئے موٹر وے کی صورت میں ایک نئی سہولت پید اہوگئی ۔
یہ معمولی واقعہ نہیں ہے ۔شہریوں کی جان ومال کی حفاظت ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے ۔ اگر کسی ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو تب بھی اس کے شہری کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے خود احتیاط کے تقاضوں سے غفلت نہیں برتتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا قانون اتنا طاقتور ضرور ہے کہ وہ مجرم کو فوراً لٹکا سکتا ہے۔ لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے پیش آنے والے حادثے کو روک نہیں سکتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تو قانون کی عملداری کا وجود ہی نہیں ہے تو ایسے میں ہمیں اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کیلئے خود احتیاطی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔اس قسم کے دلخراش واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں اس لیے خاص طور پر خواتین کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس واقعہ کے بعد پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کو پکڑ کر سرعام سزائے موت دی جائے۔ سوشل میڈیا کی تمام سائنس پر یہی مطالبہ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے جبکہ خالق کائنات نے بھی اپنی آخری کتاب میں معاشرے کے ایسے ناسور وں کو سرعام نشان عبرت بنانے کاحکم دیا ہے۔کسی مجرم کو سزادینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمام لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی ایسے جرم کا مرتکب نہ ہو ۔ سعودی عرب میں اسی اصول پر عمل کرکے نماز جمعہ کے بعد تمام لوگوں کے سامنے قاتل کی گردن ماری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے معاشرے میں قتل جیسے جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ موجودہ حکومت سے مطالبہ کرنا ہی وقت کا ضیا ع ہے۔حالانکہ سانحہ ساہیوال پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان بچوں کو ضرور انصاف دلائوں گا ، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اب بھی دو چار دن کے بعد گرد بیٹھ جائے گی اور عوام اس واقعہ کو بھول جائیں گے اور پھر کوئی اور سانحہ رونما ہوگا تاہم اب ریاست کو فیصلہ کرنا ہے کہ معاشرے میں پھیلتے اس طوفان کے آگے ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھنا ہے یا کچھ اور کرنا ہے ؟