اتوار‘ 2 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 20 ؍ ستمبر 2020ء
لوگوں سے کہتا ہوں غلط کام کروں تو میری گاڑی پر اینٹیں ماریں‘ اعجاز شاہ
یہ ہوئی نا بات مردوں والی۔ یہ ہوتی ہے سیاسی تربیت۔ ایک اچھے سیاستدان کی پہچان بھی یہی ہوتی ہے کہ عوام میں شعور بیدار کرتا ہے ‘ انہیں کھرے کھوٹے کی پہچان سکھاتا ہے۔ جس دن ہمارے لوگوں میں یہ شعور پیدا ہو گیا اور انہوں نے پھول کی جگہ پتھر اٹھا کر غلط کام کرنے والوں کا استقبال کیا تو سمجھ لیں کہ تبدیلی آ گئی۔ ورنہ آج تک تو عوام…؎
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوش محبت میں سلائے پتھر
کا رونا رو رہے ہیں مگر اب وقت بدل رہا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ جیسے زیرک حقائق پسند سیاستدان بھی پتھر اٹھانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے بقول شاعر…؎
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
تو پھر دیر کیسی۔ عوام پاگل نہیں کہ سب پر سنگ زنی کرتے پھریں وہ آج تک اپنوں پر غیروں پر گل پاشی ہی کرتے آئے ہیں۔ وہ پتھر تب اٹھاتے ہیں جب کوئی اور راہ نہیں بچتی۔ جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے۔ اعجاز شاہ قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنی گاڑی کو پیش کیا ہے۔ کیا باقی سیاستدانوں میں اتنی بھی ہمت ہے کہ وہ شاہ جی کی بات کی تائید کریں اور عوام کو اجازت دیں کہ ان کی غلط حرکات پر غلط کام پر وہ ان کی گاڑی پر بھی اینٹیں برسائیں۔ بڑا حوصلہ چاہیے یہ بات کہنے کے لیے بھی۔ اب خدا کرے لوگوں میں بھی ایسا حوصلہ پیدا ہو اور وہ ہر غلط کام کرنے والے کی راہ میں پھول کی بجاے پتھر اٹھا کر انکا استقبال کریں۔
٭…٭…٭
میاں نوازشریف اے پی سی سے خطاب پر رضا مند ہو گئے
اب ایک طویل عرصہ بعد سیاسی میدان میں لوگ ایک بار پھر…؎
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
کے مصداق میاں نوازشریف کو چہکتا ہوا گرجتا ہوا۔ برستا ہوا دیکھیں گے۔ ویسے تو عرصہ دراز سے وہ علیل بھی ہیں۔ ان کو خاموش رہتے ہوئے بھی عرصہ بیت گیا۔ اب معلوم نہیں اس طویل حاضری اور خاموشی نے ان کی قوت گفتار پر کوئی اثر ڈالا ہے یا نہیں۔ میاں شہبازشریف اور مریم نواز شریف پاکستانی سیاست میں موجود ہیں۔ شہبازشریف تو گرجتے برستے رہتے ہیں۔ مریم نواز البتہ کچھ عرصہ چپ رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر بول رہی ہیں۔ لوگ ان کی گرم گفتاری سے واقف ہیں۔ میاں صاحب ہمیشہ سے کم گو اور نرم خو رہنے کے عادی ہیں۔ گرچہ کوچہ اقتدار سے رخصتی کے آخری دور میں وہ کافی شعلہ بیاں مقرر بننے کی کوشش بھی کرنے لگے تھے اور اس میدان میں قدم بھی جمانے لگے تھے۔ مگر پھر ان کی سیاسی بساط ہی لپیٹ دی گئی یوں انکی دبنگ بننے والی آواز ہی دبا دی گئی۔ اب دیکھنا ہے اے پی سی میں وہ آج کس طرح گرجتے برستے ہیں۔ ویسے بھی انہیں مسلم لیگ (ن) کے سخت گیر مؤقف رکھنے والے گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ جو ہر قیمت پر تخت یا تختہ کے ماٹو پر یقین رکھتا ہے۔ دیکھنا ہے اب میاں صاحب کی تقریر دلپذیر آگ لگاتی ہے یا آگ بجھاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو پہلے ہی تیل چھڑکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ سیاسی الاؤ روشن کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) تیلی چلا کر پھینکے اور پیپلزپارٹی والے ہوا دیں تو آگ بھڑکے نہ بھڑکے‘ دھواں ضرور پھیل سکتا ہے۔ جس سے حزب اقتدار والوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو سکتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی شکست کوئی اور کہانی سنا رہی ہے۔
٭…٭…٭
2018میں شاہد خاقان عباسی نے 24 کروڑ 13لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا
ویسے تو دنیا بھر میں بحیثت قوم ہمیں ٹیکس چور دیکھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں۔ پوری قوم سوائے چند لوگوں کو چھوڑ کر سب کے سب ٹیکس چوری کو نہایت ایمانداری سے کار ثواب سمجھتی ہے، اور نہایت خلوص کے ساتھ ٹیکس چوری میں اپنابھر پور کردار ادا کرتی ہے۔ سیاست دان تاجر، صنعتکار، دکاندار، کاروباری حضرات سب محکمہ ٹیکس والوں کی رہنمائی اور ان کی معاونت سے ایسی صفائی سے ٹیکس چوری کرتے ہیں کہ شرلاک ہوم یا نک ویلوٹ جیسے ماہر سراغ رساں بھی ان کے آگے نا کام و نامراد ہو جاتے ہیں۔ اب 2018کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس کس نے کتنا ٹیکس ادا کیا۔ صنعتکاروں ، تاجروں، اشرافیہ کی بات ایک طرف رکھیں۔ ان کو تو حکومت کچھ نہیں کہہ سکتی ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے۔ سب سے آسان چارہ سیاستدان ہیں ان کی پٹاری ہی کھول کر دیکھیں بڑے بڑے نامی گرامی زمیندار دولت مند۔ صنعتکار، جاگیردار اربوں کھربوںکے مالک لوگ صرف چند لاکھ ٹیکس ادا کر کے انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔ لے دے کر ایسے لوگ چند ایک ہی ہیں جو کروڑوں کا ہندسہ پار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سر فہرست شاہد خاقان عباسی ہیں، جنہوں نے 2018 میں 24کروڑ 13 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا یہ اعداد وشمار دیکھ کر تو عوام حیران ہوگئے ہیں۔ کیونکہ ایسے سینکڑوں سیاستدان موجود ہیں جو خاقان عباسی سے کہیں زیادہ کاروبار، دھن دولت، املاک اور زیورات کے مالک ہیں۔ مگر ٹیکس کی مد میں وہ بے چارے صرف چند لاکھ روپے ادا کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ چند لاکھ دیتے ہوئے بھی ان کے قلب ناتواں یا جان حزیں پر کیا کیا قیامت گزرتی ہوگی۔ فی الحال تو فہرست دیکھ کر…؎
یہ حادثات محبت جہاں جہاں گزرے
دل و نظر پہ قیامت کے امتحاں گزرے
لوگوں کے دلوں پر قیامت گزر رہی ہے۔
٭…٭…٭
اداکار میرا اپنے اوپر جادو کے خوف میں مبتلا
خدا جانے ان کے دل میں یہ خیال آیا تو آیا کہاں سے ،بھلا اب ان پر جادو کرے گا بھی تو کون کرے گا۔ اب وہ زمانہ رہا ہی کہاں۔ اب تو وہ عمر رسیدگی کے اس دور میں ہیں جہاں وہ خود کسی بنگالن مائی یا کالے علم کے ماہر سے مل کر اپنے بہتر مستقبل اور حال کے لیے جادو کرائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ورنہ اچھے بیوٹی پارلر والوں سے ان کی دعا سلام تو ہوگی وہاں اچھے تعلقات اور روپے پیسے کے بل بوتے پر جوان نظر آنے کے تمام ٹوٹکے آزمائیں۔ کوئی نہ کوئی تو عقل یا آنکھوں کا اندھا ممکن ہے ان کے دام فریب میں آجائے۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ جب سے تھیٹر کے باہر فائرنگ ہوئی ہے وہ کافی خوفزدہ بھی رہنے لگی ہیں۔ سچ کیا ہے ہمیں نہیں معلوم البتہ ہوسکتا ہے بڑی اور چھوٹی سکرین سے آؤٹ ہونے کے بعد اب سٹیج پر پرفارمنگ سے ان کو دکھ ہو رہا ہو۔ اور انہوں سے نرخ ِبالا کن کہ ارزانی ہنوز کے تحت مولانا طاہر القادری کی طرح تھیٹر کے باہر فائرنگ کرواکر ذرا اپنی اہمیت جتلانے کی کوشش کی ہو۔ ورنہ ان کے ڈرامے کے اوقات میں کسی کو کہاں پڑی کے وہ فائرنگ کرتا۔ وہ بھی عمارت پر نہ کہ اداکارہ میرا یا کسی اور پر۔ بہر حال اب انہیں جادو ٹونے اور فائرنگ کے خوف سے نکل کر اپنی اور اپنی فنی زندگی پر غور کرنا چاہیے۔ یہیان کیلئے بہتر ہے۔