بھارتی پالیسیوں پر سابق سفارتکاروں کی رائے
بدھ کے روز وزارت اطلاعات و نشریات نے کشمیر کے بارے میں بھارتی پالیسی پر ایک سیمینار منعقد کرایا جس میں ہندوستان میں متعین دو سابق ہائی کمشنروں ریاض کھوکھر اور سلمان بشیر کے علاوہ نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن میں خدمات انجام دینے والے دو سفارت کاروں عزیز احمد خان اور آصف درانی کو بھی تجزیہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ سب سے دلچسپ اور خیال افروز تجزیہ پاک بھارت تعلقات میں سخت کشیدگی کے دور میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کبھی بھی ایک ریاست کی حیثیت سے قائم نہیں رہا، سلمان بشیر نے کہا کہ موجودہ بھارت Imperial Product ہے یعنی اسے برطانوی حکمرانوں نے اکٹھا کر کے ایک ریاست کی شکل دی۔ ہندوستان ہمیشہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا مجموعی رہا ہے جو داخلی طور پر ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں۔ انگریزوں نے اسے ایک Colonial پیکج کی شکل دی اور جب انگریز اس خطے میں اپنا راج ختم کر کے جانے لگے تو انھوں نے اسے دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا یعنی ہندوستان اور پاکستان۔ سلمان بشیر کی رائے تھی کہ بھارت کے حکمرانوں اور اس کی خارجہ پالیسی اور سٹریٹجک مقاصد کا تعین کرنے والوں کا خیال ہے کہ بھارت اس وقت تک دنیا کے نقشے پر ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے نہیں ابھر سکتا جب تک اس کی سرحدوں میں توسیع نہ کی جائے۔ سابق سیکرٹری خارجہ اور بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر سلمان بشیر نے جسونت سنگھ کی کتاب کا حوالہ دیا اور کہا کہ جسونت سنگھ نے لکھا ہے کہ بھارت کے موجودہ بارڈرز اسکے سٹریٹجک مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اسے اپنے سٹریٹجک مقاصد اگر حاصل کرنا ہیں تو اسے اپنی سرحدوں کو توسیع دینا ہو گی اور پورے برصغیر کو بھارت کا حصہ بنانا ہو گا۔ سابق پاکستانی ہائی کمشنر نے موجودہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے خیالات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ 1947 میں بھارت کو تقسیم کر کے اسکے سائز کو کم کر دیا گیا ہے جس سے بھارت کو نقصان ہوا ہے۔ بھارت کے ایک اور سابق خارجہ سیکرٹری جو پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں، ’’ مسٹر شیو شنکر مینن‘‘ نے حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک بروکنگس میں لیکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو اپنے سائز میں توسیع کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک اور بھارتی سیاستدان اور دانشور ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اپنے کئی بیانات میں کہا ہے کہ پاکستان کو توڑ کر بھارت کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اور بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر کی رائے یہ تھی کہ بھارت کی ساری قیادتیں یہی خواب دیکھتی آئی ہیں کہ بھارت کو کس طرح بڑا ملک بنایا جائے۔ اب انڈیا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے جتن کر رہا ہے، ساتھ ہی وہ نیو کلیئر سپلائر گروپ میں بھی شامل ہونے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت کے پاکستان سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے جھگڑے اس کے اسی خواب کی تکمیل کی کوشش میں پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ کا خیال ہے کہ بھارت کے ایک بڑی طاقت بننے کے خواب کی تکمیل کے راستے میں پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے وہ ہٹانا چاہتا ہے۔ یہ خواہش نہرو سے لے کر مودی تک سب حکمرانوں میں رہی ہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے ہی بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے اسے پاکستان سے الگ کیا۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد کو ہڑپ کیا اور اب اس نے کشمیر کو غیر قانونی طور پر اپنے ملک کا حصہ بنایا ہے۔ سلمان بشیر کی رائے یہ بھی ہے کہ بھارت پہلے تو ملٹی پولر دنیا کا حامی تھا لیکن اب جب سے چین اور امریکہ کی کشمکش شروع ہوئی ہے اور اسے اندازہ ہوا ہے کہ دنیا بھر بائی پولر یعنی دو طاقتی ورلڈ آرڈر کی طرف جا رہی ہے تو وہ امریکہ کا حلیف بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے اب وہ چین کیساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت چین کو Contain کرنے کیلئے اس کے حلیف کے طور پر کام کرے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی میں جو تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ بھارت ایک بڑی طاقت ہے اور جنوبی ایشیاء میں اس کے ہمسائے اسے ایک بڑی طاقت مان لیں۔
پاکستان کے بھارت میں سابق ہائی کمشنر ریاض کھوکھر کی رائے یہ ہے کہ ہندوستان کبھی بھی پاکستان کو خوشحال اور مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ اسے ہمیشہ سے غیر مستحکم بنانے کی کوششیں کرتا چلا آیا ہے اس لئے وہ پاکستان سے بات چیت کر کے کوئی مسئلہ حل نہیں کرنا چاہ رہا۔ جموں و کشمیر کو غیر قانونی طور پر اپنے ملک کا حصہ بنانا ہندوستان کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ ریاض کھوکھر کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ کشمیریوں کی ہر طرح سے مدد کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں کی فل سپیکٹرم مدد کرنی چاہیے۔ سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر پاکستان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حق خود اختیاری کی جدوجہد میں ان کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اس لئے پاکستان کو کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد سے بڑھ کر اور بھی کسی امداد میں مدد کرنی پڑے تو پاکستان کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
نئی دہلی میں پاکستان کے دو سابق ہائی کمشنروں کی تقریر بڑے غور سے سنی گئی اور سیمینار میں موجود پڑھے لکھے دانشوروں نے زیادہ تر سوالات انہی دو سفارتکاروں سے پوچھے اور بھارتی خارجہ پالیسی اور اس کی سوچ کو سمجھنے کیلئے ان سے رہنمائی حاصل کی۔