مسئلہ کشمیر کے حل اور علاقائی و عالمی امن کے لیے دنیا کی نگاہیں جنرل اسمبلی پر مرکوز ہیں
وزیر اعظم عمران خاں کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب روانگی اور آرمی چیف سے تبادلۂ خیال
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گھوٹکی میں ہندو کمیونٹی کے ساتھ بدسلوکی میرے دورۂ امریکہ کے خلاف سازش ہے۔ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر جا کر لڑنے اور جہاد کرنے والا پاکستان اور کشمیریوں کا دشمن ہو گا جس کو جواز بنا کر بھارت کو کشمیریوں پر مظالم اور پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا موقع ملے گا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پری فیبریکیٹڈ ہائوسنگ منصوبہ کے افتتاح کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر میں یو این جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران نکال دوں گا۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنے ہم منصب سویڈن کے وزیر اعظم سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے انہیں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بھارت نے پانچ اگست کے اقدام سے ڈیموگرافک تبدیلی کی کوشش کی۔ بھارتی اقدامات سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر کرفیو کے خاتمہ پر زور دیا اور کہا کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج انسانی حقوق کی پامالیاں کر رہی ہے جس کا فوری سدباب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو روکا جا سکے اور وہاں کے لوگوں کو جینے کا حق مل سکے۔ دریں اثناء آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خاں سے ملاقات کی جس کے دوران مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور وزیر اعظم کے سعودی عرب اور امریکہ کے دورے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب خطے کی مجموعی صورتحال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام اور سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر حملوں کے باعث کشیدہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاکستان بھارت کشیدگی پر سخت ترین عالمی دبائو اور ردعمل کے باوجود مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے گزشتہ 47 روز سے مقبوضہ کشمیر میں ننگ انسانیت مظالم کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے بدستور بند ہیں اور کرفیو کی سختیوں کے باعث وہاں تمام کاروبار حیات ٹھپ ہو چکا ہے۔ وحشت اور آسیب کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ گھروں میں قید کشمیری ضروریات زندگی کو ترس گئے ہیں۔ گزشتہ روز پولیس نے بزرگ و لاغر کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو پریس کانفرنس سے روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی زندگی بدتر ہونے لگی ہے۔ چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہے اور گھروں میں محصور لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو بھی ترس گئے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق صرف شوپیاں کے علاقے سے دو ہزار کے قریب نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور وادی میں حریت قائدین اور سیاسی رہنما بدستور بند ہیں۔ کرفیو اور لاک ڈائون کے باعث ادویات بھی معدوم ہو چکی ہیں۔ گزشتہ روز قابض بھارتی حکومت نے اپنی پارٹی بی جے پی کے سابق رہنما یشونت سنہا ، ریٹائر ائر مارشل کپل کاک اور سماجی کارکن سشوبھا بھادے کو بھی سری نگر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جبکہ گزشتہ ماہ -4 اگست سے اب تک مقبوضہ وادی میں ذرائع مواصلات مکمل بند ہیں اور پانچ اگست کو نافذ کئے گئے کرفیو کا تسلسل ایک لمحہ کو بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا۔
بھارتی فوجوں کے ان مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، یورپی یونین ، برطانوی پارلیمنٹ ، امریکی ارکان کانگرس اور چین و امریکہ کی قیادتوں سمیت تمام علاقائی اور عالمی نمائندہ فورمز اور قائدین کی جانب سے سخت نوٹس لیتے ہوئے بھارت کی مودی سرکار کو مقبوضہ وادی میں جاری مظالم سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے اور خود بھارتی سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ دنوں مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر لانے کے احکام صادر کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ ضرورت پڑی تو فاضل چیف جسٹس خود مقبوضہ وادی کا دورہ کریں گے۔ گزشتہ روز ترک صحافیوں کے ایک وفد نے کنٹرول لائین کا دورہ کیا جہاں وفد کے ارکان کو بھارت کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ ترک صحافیوں نے اس موقع پر بھارتی فائرنگ کا نشانہ بننے والے شہریوں سے بھی ملاقاتیں کیں اور موجودہ صورتحال پر ان کے تاثرات معلوم کئے۔ یقیناً کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب پانچ اگست سے اب تک کسی نہ کسی علاقائی اور عالمی فور م اور قائد کی جانب سے مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرنے اور مسئلہ کشمیر کا یو این قراردادوں کے مطابق حل نکالنے کا نہ کہا گیا ہو۔ گزشتہ روز بھی ترجمان چینی وزارت خارجہ نے ایشیائی اور افریقی ممالک کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے باور کرایا کہ چین نے کشمیر کو ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسئلہ کے طور پر لیا ہے۔ ان کے بقول مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے اور دونوں ممالک کو یہ مسئلہ باہمی ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔
پاکستان نے تو یقیناً مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور کشمیر اور پانی سمیت جو بھی دوطرفہ تنازعہ پیدا ہوتا ہے پاکستان مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اسے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا قابلِ عمل اور تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول حل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے پیش کر دیا ہے جن کے تحت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی گئی تھی مگر بھارت نے اقوام متحدہ کی ان قرار دادوں کو بھی کبھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور ان قراردادوں کو غیر موثر بنانے کے لیے پہلے اس نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اور پھر سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے باعث پیدا ہونے والی پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ 1972 ء میں شملہ معاہدہ کر کے اسے کشمیر سمیت کسی بھی دوطرفہ تنازعہ کو کسی دوسرے علاقائی اور عالمی فورم پر لے جانے سے روک دیا جبکہ اس نے خود بھی کبھی شملہ معاہدہ کی پاسداری نہیں کی اور بالخصوص مسئلہ کشمیر پر کسی بھی سطح کے مذاکرات کی میز خود رعونت کے ساتھ الٹائی اور پاکستان کو کشمیر بھلا دینے کا درس دیتا نظر آیا۔ اب اسی بھارت نے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو آئین سے نکال کر مقبوضہ وادی میں اپنا جبر و تسلط بڑھا دیا اور کشمیری عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین مزید کشیدگی پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔
مودی سرکار کی جنونیت نے آج ایسی صورتحال بنا دی ہے کہ دونوں ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکے ہیں اور چنگاریاں برساتی بھارتی جنونیت کسی بھی وقت اس خطہ میں ایٹمی جنگ کی نوبت لا سکتی ہے جس سے اس خطہ ہی نہیں ، پورے کرۂ ارض کی تباہی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ مودی سرکار کی جنونیت میں کوئی کمی آ رہی ہے نہ وہ عالمی برادری کا کوئی دبائو اور مشورہ تک بھی قبول کرنے کو تیار ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی چار بار پیش کش کر چکے ہیں مگر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس کے برعکس اس نے مقبوضہ وادی میں مظالم کا سلسلہ مزید دراز کر دیا ہے جبکہ اب مودی سرکار کی جانب سے پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتایا جانے لگا ہے جو سیدھا سیدھا پاکستان کی سلامتی میں نقب لگانے کی مذموم خواہش کا اظہار ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو لامحالہ اپنے تحفظ و دفاع کے تقاضے نبھانے ہیں جس کے لیے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں مکمل یکجہت و یکسو ہیں اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خاں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے باہمی تبادلۂ خیال کر کے ملک کے دفاع کی حکمت عملی طے کی ہے۔
بھارت کی پیدا کردہ اس صورتحال پر جہاں عالمی اور علاقائی قیادتیں متفکر ہیں وہیں بھارتی جنونی ہاتھ روکنے کی کوئی ٹھوس عالمی حکمت عملی طے کرنے کی بھی ضرورت ہے، اس تناظر میں پوری دنیا کی نگاہیں آئندہ ہفتے نیویارک میں شروع ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس پر مرکوز ہیں جس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے اقدامات اٹھانا ہی اصل ایجنڈا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خاں اس اجلاس میں شرکت کے لیے جمعرات کے روز سعودی عرب روانہ ہو گئے جہاں سعودی قیادت کو اعتماد میں لینے کے بعد وہ نیویارک جائیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی بنیاد پر پاکستان کا کشمیر کیس عالمی قیادتوں کے سامنے پیش کریں گے اور مودی سرکار کا اصل مکروہ چہرہ دکھائیں گے۔ مودی سرکار نے اسی حوالے سے وزیر اعظم عمران خاں کے دورہ امریکہ کو ناکام بنانے کے لیے مختلف سازشوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے بجاطور پر نشاندہی کی ہے کہ گھوٹکی میں ہندو برادری پر حملہ ان کے یو این جنرل اسمبلی میں خطاب کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ بھارت اور بھی ایسی سازشیں کر سکتا ہے اس لیے ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کو ہمارے کسی بھی اقدام سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ اس وقت اگر کوئی پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں لڑنے اور جہاد کرنے گیا تو یہ پاکستان اور کشمیریوں سے دشمنی ہو گی۔ وزیر اعظم مظفر آباد کے جلسہ میں چونکہ خود اعلان کر چکے ہیں کہ کنٹرول لائین عبور کرنے کی ضرورت پڑی تو اس کی وہ خود کال دیں گے۔ فی الوقت انہیں یو این جنرل اسمبلی میں کشمیر کیس کی وکالت کرنے دی جائے۔ یہ وزیر اعظم کی مناسب سوچ ہے اس لیے یو این جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب تک انفرادی یا اجتماعی طور پر ہماری جانب سے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جانا چاہئے جسے جنرل اسمبلی میں بھارت اپنے حق میں کیش کرا سکے۔ پاکستان نے مودی کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دے کر کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف موثر انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔ اب عالمی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرے کا باعث بننے والے مودی سرکار کے جنونی ہاتھ روکنے کی کوئی موثر حکمت عملی طے کریں جبکہ بھارت کے معاملہ میں عالمی قیادتوں کی جانب سے اب کسی مصلحت سے کام لینے کی قطعاً گنجائش نہیں رہی۔