طالبان کی پھر مذاکرات کی پیشکش
افغان طالبان نے امریکہ کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر ٹرمپ مستقبل میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہیں تو ان کے دروازے کھلے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان رہنما کے بیان پر افغان مشیر سلامتی ڈاکٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ طالبان کی د ھمکانے کی پالیسی کامیاب نہیں ہو گی ، ایک ہی راستہ ہے وہ افغان حکومت سے مذاکرات سے ہی ملک میں امن دیکھ سکتے ہیں۔
افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری خونریزی کے خاتمے کی ایک امید پیدا ہوئی تھی۔ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تیار نہیں تھا۔ طالبان کی طرف سے بھی مذاکرات کی کبھی خواہش سامنے نہیں آئی تھی۔ طالبان کی ایک ہی شرط تھی کہ امریکہ اور اتحادی افغان سرزمین چھوڑ دیں جبکہ امریکہ اس کے نیٹو اور کابل انتظامیہ طالبان سے غیر مشروط سرنڈر کی خواہش رکھتی تھی جو احمقانہ خواہش ہی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہوئے جن میں تیزی سے پیشرفت ہوئی اور معاملات حتمی معاہدے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ طالبان کے ایک حملے میں دس افغانیوں کے ساتھ ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا۔ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے خلاف امریکی اور افغان افواج کی طرف سے آپریشن اور بمباری ہوتی رہی ، طالبان بھی حملے کرتے رہے۔ فریقین مذاکرات کے دوران بھی سیزفائر پر تیار نہیں تھے۔ ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر امریکہ کا ردعمل غیر ضروری اور مذاکرات کی بساط لپیٹ دینا افغان امن کو مزید بربادی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد سے فریقین پہلے سے بڑھ کر ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ دو روز قبل دو دھماکوں میں 48 افراد مارے گئے جس کی امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے شدید مذمت کی دوسری طرف افغان قومی سلامتی کے مشیر جو امریکہ طالبان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں انہوں نے مذاکرات ہی کو امن کا راستہ قرار دیا ہے۔ طالبان بھی مذاکرات پر آمادہ ہیں امریکہ کو بھی ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آنا چاہئے۔