جمعۃ المبارک ‘ 20 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 20ستمبر 2019 ء
اقوام متحدہ امن مشن میں خدمات انجام دینے والی پاک فوج کی خاتون افسر کی دھوم
پاکستانی خواتین اس وقت زندگی کے مختلف شعبوں میں جس طرح قابل قدر خدمات انجام د ے رہی ہیں۔وہ پوری قوم کے لیے باعث افتخار ہے۔ پاک فوج میں شامل پاکستانی خواتین بھی ملک سے باہر خدمات سرانجام د ے رہی ہیں۔ ان کی صلاحیت محنت اور انسان دوستی نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ قبرص میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں اپنے فرائض سرانجام دینے والی پاکستانی فوجی افسر فوزیہ پروین کی خدمات پر خود اقوام متحدہ مشن کے افسر نے اپنے ٹویٹ میں جس طرح ان کی تعریف کی ہے اس پر بے شمار لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ پاکستانی خواتین کی خدمات کا صلہ ہے کہ دنیا بھر میں ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو پاکستان کا حسین حقیقی پرامن اور باعزم چہرہ نظر آتا ہے جس پر عرصہ دراز سے امن دشمن قوتوں نے اندرون و بیرون دشمنوں کے ساتھ مل کر وحشت اور سفاکی کا پردہ ڈالا ہوا تھا۔ اب جیسے جیسے حالات بدل رہے ہیں دنیا بھر میں پاکستانی کا امیج بہتر ہو رہا ہے۔ دیار غیر میں رہنے والے یا کام کرنے والے دیگر پاکستانی بھی اگر فوزیہ پروین جیسی فوجی افسر کا رویہ اپنائیں تو ملک کے بہترین سفیر بن سکتے ہیں جو منفی پراپیگنڈے کو ختم کر کے ہمارا اصل پرامن خوبصورت رویہ اور چہرہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
حکومت کے حق میں کالم لکھنے پر 15 ہزار ملیں گے۔ جھار کھنڈ حکومت کا اعلان
چلئیے اس بہانے کچھ لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست ہو جائے گا اور نالائق حکومت کی کچھ دن خوب جے جے کار ہو گی۔ مگر اس سے یہ بھی پتہ چل رہا ہے۔ کہ جھار کھنڈ کی حکومت کی کارکردگی ویسی نہیں کہ عوام اس پر پھول برسائیں۔ اس لیے اب حکومت خود پر پھول برسانے والوں کو بھی خود ہی ڈھونڈ رہی ہے۔ ظاہری بات ہے جھاڑ کھنڈ میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار ہوں گے۔ اب ان کے ہاتھ ایک شغل آ جائے گا۔ وہ حکومت کے حق میں کالم لکھ لکھ کر ماہانہ معقول رقم کما سکتے ہیں۔ اب کہیں جھار کھنڈ کے اخبارات کم نہ پڑ جائیں یا پھر ایک ماہ رقم دینے کے بعد حکومت کا خزانہ ہی نہ خالی ہو جائے۔ ویسے اخبارات کا بھی کیا پتہ کون حکومت کا حامی ہے کون مخالف۔ اگر یہ حکومت ذرا سا بھی شعور رکھتی تو کاغذی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے عوام کی خدمت اور بھلائی کے کاموں پر پیسہ خرچ کر کے نیک نامی کما سکتی ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنی تعریف کے لیے یہ کام کرتی ہیں مگر کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اس طرح کھلم کھلا اعلان کر کے اپنی رسوائی کا سامان پیدا کرے۔ ہر عقل مند حکمران یہ کام اپنے وزیروں مشیروں اور سرکاری اداروں کے تعاون سے چپکے چپکے کراتا ہے تاکہ بھرم بھی رہے اور کام بھی اعلیٰ ہو۔ مگر کیا اس طرح کوئی بھی ناکام حکومت خود کو زیادہ دیر بچا پانے میں کامیاب رہ سکتی ہے۔ کیا اس طرح سے چھاپی گئی تعمیر و ترقی کی جھوٹی کہانیوں پر لوگ اعتبار کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا جواب نہ میں ہے تو پھر ناکام حکومتیں ایسے کام کیوں کرتی ہیں۔ جیسا بھارت کی جھار کھنڈ کی حکومت کر رہی ہے۔
ایوانکا کے نئے روپ کو دیکھ کر دنیا کا ہر پانچواں شخص حیران
بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اب صدر ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ کو ہی دیکھ لیں انہوں نے اپنے والد کی طرح چونکا دینے والے کاموں کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے اس بار اپنا ہیئر سٹائل اور میک اپ کا انداز ہی کچھ اس طرح بدلا کہ دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ان نئی تصاویر دیکھ کر دنیا کا ہر پانچواں شخص ہکا بکا رہ گیا۔ اب کیا کوئی چندے آفتاب چندے مہتاب اداکارا یا حسینہ ان کے مقابل آئے۔ وہ بذات خود؎
یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں
ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے
کا نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ ان کی اس بدلی ہوئی صورت اور زیبائش کو دیکھ کر ہر شخص انگشت بدنداں ہے۔ صرف یہی نہیں ۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی ریٹنگ میں اپنے پدر بزرگوار یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی شہرت کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے والد سے بھی زیادہ مشہور ہیں۔ مگر برا ہو اس امریکی سیاست کا کہ وہاں پدرم سلطان بود کا فلسفہ کام نہیں آتا ۔ورنہ ہم کہہ سکتے تھے کہ ٹرمپ کے بعد امریکی تخت و تاج ایوانکا ٹرمپ کے سر سجنے والا ہے۔ رازداں تو اب بھی کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ پر ایوانکا اور ان کے شوہر کا گہرا اثر ہے۔ یہ دونوں صدر کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خود امریکہ میں بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اگر امریکی نظام سیاست میں گنجائش نکل پائے تو ایوانکا امریکہ کی پہلی خاتون سربراہ بن سکتی ہے۔ ہیلری کلنٹن کو تو یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا۔ شاید ایوان کی کو مل پائے۔
٭٭٭٭٭
سنیارٹی لسٹ کا کمال۔ ملازم کو پیدائش سے پہلے لیسکو میں بھرتی کرا دیا
ایسے انوکھے کارنامے ہمارے ہاں اکثر سرانجام پاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے والے جانتے ہیں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ بچے کو پیدائش سے قبل ملازم بھرتی کرانا ہمار ے ان جادوگروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ تو بس شاعروں کی قسمت بری ہے کہ وہ کہتے ہیں
وہ کسی طرح نہ ہمارے ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اگر یہ نکمے شاعر حضرات ایسے لیسکو والے کسی عاجل و فاضل شخص سے رابطہ کرتے تو وہ یہ کارنامہ بھی کر کے دکھاتا۔ اب لیسکو کے اس کلرک بادشاہ کا کمال دیکھیں کہ ایک ساتھی کو بطور اسسٹنٹ ترقی دلوانے اور اس کا نام سنیارٹی لسٹ میں ڈلوانے کے لیے اسے اس کی پیدائش کی تاریخ سے قبل لیسکو کا ملازم بنا دیا۔ اب اسے دوستی کہیں یا چمک کا کرشمہ۔ وجہ جو بھی ہو یہ کما ل کی بات اگر پکڑی نہ جاتی طشت ازبام نہ ہوتی تو وہ کلرک بادشاہ ترقی پاکر اسسٹنٹ بن جاتا اور یوں شیرو شکر والی مثال ان دونوں میں دیکھنے کو ملتی۔ مگر افسوس اڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہونے والے اب ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہوں گے۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔ بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ اس لیے سوائے صبر اور شرمندگی کے اور کوئی چارہ نہیں۔ ویسے بھی ان معاملات میں کوئی خاص ایکشن نہیں لیا جاتا۔
٭٭٭٭٭