بھارت کے اندر ہی نہیں پوری دنیا میں اس افسر کے استعفی نے ہلچل مچا دی۔ اخبارات اور ٹیلی ویڑن چینل بڑی بڑی خبریں دینے لگے۔ ہر طرف اس کے نام کا چرچا ہوگیا۔ بھارت کے اندر سے مودی ذہنیت رکھنے والوں نے اس پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا اور اس پر سرکاری افسران کے لئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزامات لگانے شروع کردئیے گئے۔ جس پر ناتھن نے جواب دیا کہ ’’میرے مستعفی ہونے کے بعد مجھ پر مس کنڈکٹ کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔‘‘
صرف اس کے خلاف ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اس کے حق میں بھی خاصی تعداد میں لوگوں نے بات کی اور اس کی جمہوریت پسند اور منصفانہ سوچ کی داد دی۔ گوپی ناتھن کے عمل پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما بھی بھنا کررہ گئے اور غداری کے لیبل چپکانے لگے۔ کرناٹکا سے بی جے پی کے رکن پارلیمان آننت کمار نے ناتھن کو غدار قرار دیتے ہوئے اسے طعنہ دیا کہ وہ پاکستان چلا جائے۔
ناتھن کے ضمیر پرستی کے راستے پر چلنے والے ایک اور افسر ششی کانتھ سینتھل بھی ہیں جنہوں نے عہدے سے استعفی دیا۔ جنوری 2019 میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں ٹاپ کرنے والے کشمیری نوجوان شاہ فیصل نے استعفی دے دیا تھا۔ اب وہ سیاسی جماعت بنا کر سیاسی جدوجہد شروع کرچکے ہیں۔ پاکستان کی سول سروس کے افسران میں بھی ایسے افسران کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ امور خارجہ سے تعلق رکھنے والے عدنان رندھاوا حقیقی دانشور ہیں کالم بھی لکھتے ہیں اصولی بنیادوں پر چکاچوند نوکری پر لات مار دی اب وکالت کرکے خوش ہیں ۔
بانی پاکستان قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد سرکاری افسران اور ملازمین کو سیاست سے دور رہنے کی نصیحت کی تھی اور ان کا فرض انہیں یاد دلایا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے والی منتخب حکومت کو دیکھنے کے بجائے یہ امر ذہن نشین رکھیں کہ انہوں نے قانون اور قاعدے کے مطابق اپنے فرائض ہائے منصبی بجالانے ہیں۔ اس میں کسی خوف، لالچ اور دباو کو خاطر میں نہیں لانا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے انیتا تراب سمیت کئی ایسے مقدمات میں سول سروس یا نوکر شاہی کے لئے رہنما اصول مزید صراحت سے بیان کردئیے ہیں جن میں یہاں تک کہاگیا ہے کہ سرکاری افسران اپنے افسر بالا کے غیرقانونی احکامات کو ماننے سے انکار کردیں۔ عدالت عظمی کے فیصلوں میں بنیادی اصول یہ بتایا گیا ہے کہ سرکاری افسران قانون کی پاسداری کو شعار بنائیں۔ ان کے سامنے واضح قانون اور ضابطوں کی حدود وقیود واضح طے ہیں۔ وہ کسی سیاسی دباو کو استعمال میں نہ لائیں۔ عمل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ افسران راتوں رات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سیاست کی چکی مقابلے کے امتحان میں اور دعاوں اور منتوں سے پاس ہوکر افسر بننے والوں کو بھی گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح پیس کر ایک ہی طرح کردیتی ہے۔ ضمیر کی روشنی رکھنے والے معدود چند ہی رہ جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر افسران کا ضمیر ریٹائرمنٹ کے بعد ہی جاگتا ہے۔ کچھ اس کا اظہار کتاب لکھ کر کردیتے ہیں لیکن بہت سارے سب کچھ سینے میں لے کر زمین میں اتر جاتے ہیں۔
ضمیر وہ جو بروقت جاگ جائے بعد از ریٹائرمنٹ توکئی گرگ باراں دیدہ جمہوریت کے لیکچر دیتے پھرتے دیکھے گئے اور اپنے ہاں تو یہ عجب چلن بھی دیکھا کہ ساری زندگی بظاہر اصولوں کی پاسداری کرنے والے غلام اسحق خان صدر بن کر اختیارات کی ڈھلوان سے ایسے پھسلے کہ کہیں ٹھر ہی نہ پائے عالم یہ ہوگیا 30 برس کی شناسائی کے بعد صاحب کشف بزرگ خواجہ غفور احمد نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اسحق خان یکسر بدل گئے تھے ۔ کہاں کے اصول اور کہاں کی اصول پسندی کچھ بھی نہ رہا’کچھ بھی نہ بچا
(ختم شد)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024