کشمیریوں پر مظالم کا بڑھتا ہوا سلسلہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی مظالم کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ قابض فوج کی جانب سے سرچ آپریشن کے دوران آئے روز بے گناہ کشمیریوں کو گولیاں مار کر شہید کیا جارہا ہے۔بھارتی فورسز نے گزشتہ روز بھی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کلگام میں سرچ آپریشن کے دوران فائرنگ کرکے مزید 6 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا۔ شہید نوجوانوں کو گرفتار کرکے پہلے ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا اور پھر عسکریت پسند قرار دے کر ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔شہید نوجوانوں کی شناخت گلزار احمد، فیصل احمد راٹھور، زاہد احمد میر، مسرور احمد مولوی، ظہور احمد لون اور رؤف احمد کے نام سے ہوئی۔ قابض فوج نے جمعرات کو بھی 8 کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا تھا جس کے نتیجے میں تین روز میں شہدا کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
کٹھ پتلی انتظامیہ نے بے گناہ نوجوانوں کی شہادت کے خلاف لوگوں کو احتجاج سے روکنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے وادی میں نہ صرف انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل کردی بلکہ ٹرینیں بھی منسوخ کردیں۔ قابض بھارتی فوج نے سرچ آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کااستعمال بھی کیا ۔
حریت قائدین علی گیلانی، میرواعظ ڈاکٹر محمد عمر فاروق اور محمد یاسین نے تحریک سے وابستہ جملہ اسیران زندان کو ریاست اور ریاست سے باہر جیل خانوں میں طبی اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھنے کے علاوہ انہیں جسمانی تشدد ، تعصب ، نفرت اور بدترین قسم کی سیاسی انتقام گیری کا شکار بنائے جانے کے نتیجے میں ان کی عزیز جانوں کو خطرہ لاحق ہونے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے اپنے اہل و عیال، والدین اور بچوں سے علیحدہ کر کے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے مقید رکھنا کیا کم سزا ہے کہ اسے جسمانی تشدد، گالی گلوچ، تعصب، نفرت کے علاوہ تسلیم شدہ جیل مینول کو روندتے ہوئے طبی سہولیات اور دیگر غذائی اجناس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں اگست کے ماہ میں بھارتی فوج کے شدید ظلم و جبر کے نتیجے میں خاتون سمیت 34 افراد جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں سے 2 کو جعلی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا گیا۔گزشتہ ماہ قابض فوج، پیرا ملٹری اور پولیس کی جانب سے پرامن مظاہرین پر فائرنگ، پیلٹ گنز کے استعمال اور آنسو گیس کی شیلنگ سے 483 افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گھروں پر چھاپے مارنے اور کریک ڈاؤن آپریشنز کے دوران 196 حریت رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور کشمیری نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔بھارتی فوج نے گزشتہ ایک ماہ میں سرچ آپریشنز کے دوران 140 گھروں کو تباہ یا نقصان پہنچایا، جبکہ 5 خواتین کی عزت کو پامال کیا گیا۔کشمیر میں جاری اس تشدد میں گزشتہ دہائی میں تیزی سے کمی آئی تھی لیکن گزشتہ سال بھارتی فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن آل آؤٹ کے نتیجے میں 350 اموات ہوئیں اور وادی میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
بھارتی حکومت اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کو چھپا کر پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کی تربیت کر کے اور انہیں مسلح کر کے مقبوضہ کشمیر میں بھیجتا ہے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی ہے۔ عالمی طاقتیں ، اقوام متحدہ اور او آئی سی بھارتی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرے تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف اور زیادہ طاقت کا استعمال کرے گی کیونکہ یہ پاکستانی حمایت یافتہ عسکریت پسند ہیں۔ یوں بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس تقریباً تمام کشمیری علیحدگی پسندوں کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور وہ اس خطے میں بھارتی اقتدار اور وہاں جاری فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں بھارتی فوج اور پولیس کے مظالم اور غلامانہ سلوک کے بعد اب عام کشمیری بھی مجاہدین کے حامی بن رہے ہیں۔ وہ مجاہدین کو صرف پناہ ہی نہیں دیتے بلکہ ضرورت پڑنے پہ انہیں بھارتی فوجیوں سے بچاتے بھی ہیں۔ کچھ عرصہ سے یہ منظر بھی دیکھنے میںآئے ہیں کہ بھارتی فوج کسی جگہ مجاہد کو گرفتار کر نے جائے‘ تو وہاں مرد، عورتیں، بچے غرض پورا گاؤں انھیں دیکھ کر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور بھارتی فوجیوں پر بلا خوف و خطر زبردست سنگ باری کی جاتی ہے یہاں تک کہ فوجی بزدلوں کی طرح دم دبا کر بھاگنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کی بات ہے کہ کشمیری والدین کی اکثریت خصوصاً اپنے نوجوان بیٹوں کو مسلح جدوجہد آزادی کرنے سے روکتی تھی۔انہیں بھارتی مظالم سے بچاتی تھی۔ مگر آج کشمیری خاندان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے بہادر سپوت بے وسیلہ ہوتے ہوئے بھی طاقتور دشمن سے نبردآزما ہیں۔اب منظر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مجاہد بھارتی غاصبوں سے دوبدو لڑتا شہید ہو‘ تو اس کے جنازے پر پورا علاقہ امڈ آتا ہے۔اس موقع پر ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے اور پاک پرچم میں لپٹا شہید بھارتی حکمرانوں کا دل دہلا دیتے ہیں۔ اب ہزار ہا خاندان آزادی کی خاطر ہر قسم کی مصیبت و پریشانی جھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تبدیلی ایسے ہی نہیں آئی اس کے پس منظر میں ہزاروں نوجوانوں کی قربانیاں ہیں۔ دور حاضر میں اس تبدیلی کی بڑی مثال مظفر احمد وانی ہیں۔
بھارتی فوجیں آئے دن معصوم کشمیری نوجوانوں کو پکڑ کر اذیت خانوں میں پہنچا کر غیر انسانی سلوک کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے کشمیر کی تحریک کبھی کمزور نہیں ہو سکتی۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ یہاں اپنا رول نبھائیں اور اقوام عالم کے اداروں میں بھارت کو بے نقاب کریں۔ ہزاروں بے گناہ کشمیری ہندوستان کی مختلف جیلوں میں شدید بیماریوں کا شکار برسوں سے بند پڑے ہیں، جو انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ کشمیری قوم نے آج تک ایک لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ قربانیاں کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کیلئے نہیں دی گئیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی پاس شدہ اور تسلیم شدہ قراردادوں کے تحت حل کرنے کیلئے دی گئیں۔ مسئلہ کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس کے ساتھ برصغیر کا امن جڑا ہوا ہے۔ جب تک اس مسئلہ کو حل نہ کیا جائے تب تک برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔