جنگ ستمبر65 ء دفاع وطن تھی
قارئین کرام وطن عزیز پاکستان کو قائم ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ کشمیر کو آزادی نہ ملنے پر اور ہندوستان کی فوج کو کشمیر میں داخل کرنے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے کشمیریوں کو آزاد کرانے اور ہندو فوج کو وہاں سے نکالنے کی خاطر 1948 ء میں جہادی جنگ کا آغاز کیا تو اس جنگ میں پاکستان کی فوج کامیابی حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھتی جا رہی تھیں کہ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں اپیل دائر کر دی تھی کہ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ بند کرائی جائے اور کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے تاکہ معلوم ہو کہ کشمیری کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لہٰذا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں نے یہ تجویز اقوام متحدہ کے ذریعے تسلیم کر لی اور اس وقت تک جو علاقہ پاکستانی فوج نے آزاد کرایا تھا وہی حصہ اب آزاد کشمیر ہے جس کی انتظامیہ کی پاکستان مدد اور اعانت کرتا ہے اور باقی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی خاطر قرارداد اقوام متحدہ کے تحت ہمیشہ سے حمایت کر رہا ہے جبکہ ہندوستان کی حکومت آج تک وعدہ خلافی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
اسی درج بالا تنازعہ کے باعث ہندوستان اور پاکستان کے حالات آج تک کشیدہ ہی آرہے ہیں۔ لہٰذا جون 1965 ء تھا کہ ہندوستان کی فوج نے سندھ بارڈر پر رن آف کچھ کے صحرائی میدان میں اپنا قبضہ کرنا چاہا تو پاکستانی فوج نے سخت مزاحمت کر کے انہیں وہاں سے بھگا دیا۔ اس طرح پاکستانی فوج نے اس محاذ پر بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ حالانکہ اصل جھگڑا تو کشمیر کا تھا اس لئے پاکستان نے رن آف کچھ سے فوج کی واپسی کے بعد کشمیر کے محاذ پر کارروائی کا آغاز کر دیا اور بڑی تیزی سے ہماری فوج آگے بڑھ رہی تھی تو اسی اثناء میں ہندوستانی فوجی رات کے اندھیرے میں واہگہ بارڈر کے راستے لاہور شہر کی طرف بڑھنے لگے تاکہ کشمیر کے محاذ سے پاکستانی فوج پیچھے ہٹ جائے۔
قارئین کرام مجھے یاد ہے میں جب 6 ستمبر1965 ء کو بی اے کاامتحان پاس کرنے کے بعد رزلٹ کارڈ لینے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کے دفتر گیا تو وہاں طریقہ یہ تھا کہ دفتر سے پرشدہ کوائف کارڈ وصول کر کے پرنسپل سے خود طالب علم جا کر ملتا اور دستخط کروانے ہوتے تھے۔ اس طرح ہم چند ساتھی اکٹھے تھے اور ہمیں پرنسپل میاں محمود احمد نے اندر بلوا لیا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو وہ فون آنے پر بات کرنے لگے کہ آج صبح ہندوستان کی فوج نے واہگہ بارڈر کے راستے لاہور پر حملہ کر دیا ہے یہ لاہور شہر سے فون آیا تھا جس پر انہوں نے حیرانی کا اظہار بھی کیا۔ بہرحال بات ختم ہونے پر انہوں نے ہمارے رزلٹ کارڈز پر دستخط کر دئے اور مبارکباد بھی دی۔ بعد ازاں میں جب واپس جا رہا تھا تو ملتان شہر میں سڑکوں پر دکانوں اور ہوٹلوں کے آگے لوگوں کے ہجوم لگے ہوئے تھے جو ریڈیو پر صدرجنرل محمد ایوب خان کی جنگ بارے تقریر سن رہے تھے جسے میں نے بھی سنا تھا۔ اس تقریر نے نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ہر پاکستانی کو ولولہ دیا اور پھر ہندوؤں کے خلاف جانیں نثار کرنے کو تیار ہو گئے تھے۔ یہ دفاعی جنگ 6 ستمبر سے22 ستمبر تک سترہ روزہ جنگ بھرپور طریقے سے لڑی گئی جس میں ہماری بہادر افواج نے ہندوستانی فوج کے دانت کھٹے کر دئے اور انہیں واپس بھاگنے پر مجبور کر دیا بلکہ ہندوستان کے کچھ علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ اور روس کی ثالثی پر تاشقند شہر میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کا اجلاس بلایا گیا جس میں معاہدہ ہوا تو پھر جنگ ختم ہوئی اور علاقے واپس ہوئے۔
قارئین کرام اصل ضرورت قومی جذبہ‘ خدمت اور جذبہ ایثار و قربانی کی ہے۔ ہمارے وہ اکابرین جنہوں نے انگریز حکومت سے آزادی حاصل کرنے پر مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ اپنا فرض ادا کر کے پاکستان کی صورت میں ملک دے کر اﷲ کو پیارے ہو چکے ہیں ان کے بعد بھی کئی آئے اور کئی گزر گئے اور اپنے حصے کا کام کر گئے ہیں۔ کہنے کو تو پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کا حکمران طبقہ ہمیشہ امیر لوگ ہی ہوتے ہیں مگر پاکستان کی مالی اور معاشی حالت ہمیشہ کمزور رہتی ہے۔ بنابریں قرضہ لے کر ملک کا نظام چلانا پڑتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے حالانکہ ہمارے پیارے وطن میں اﷲ کے فضل سے ہر قسم کے لوگ موجود ہیں جن میں امیر کبیر بھی ہیں اور مفلس و نادار بھی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو ہر قسم کا موسم دیا ہے جس کی بنا پر یہاں ہر قسم کے پھل‘ میوے اور غذائی اجناس پیدا کی جاتی ہیں جو نہ صرف اپنے ملک میں استعمال ہوتی ہیں بلکہ بیرون ملک بھیج کر زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔ اس سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی ہمارا ملک غریب اور مقروض کیوں ہے اس پر غور اور فکر کی ضرورت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے جب خدانخواستہ ملک میں کوئی ناگہانی آفت آتی ہے یا ملک میں کوئی انسانی بھلائی کا منصوبہ غیر سرکاری شروع ہوتا ہے تو امیر غریب سب دل کھول کر عطیات جمع کرواتے ہیں لیکن افسوس اور حیرانی اس بات کی ہے کہ یہ لوگ چندہ تو بخوشی دیتے ہیں مگر ملکی قانون کے تحت اپنی مالی آمدنی پر حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ اس میں عار کیوں محسوس کرتے ہیں جبکہ یہ بھی عین ثواب ہے اور بطور ملک کے باشندے اور شہری کے ملک کے قانون پر عمل کرنا اولین فرض ہے لیکن یہاں تو ہر شخص قانون سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے ذاتی فائدہ حاصل ہو ملک کا کیا ہے یہ تو سب کا ہے یہ نہیں سوچتے پختہ سڑکیں‘ پل‘ ڈیم‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال وغیرہ بھی تو حکومت ہی بناتی ہے جو سب کے لئے ہوتے ہیں۔ ذرا سوچئے۔