’’ریاست مدینہ کا خواب!‘‘
قوموں کا مزاج تبدیل ہونے میں عشرے لگ جاتے ہیں۔ بام عروج پر پہنچے سائنس وٹیکنالوجی کے اس دور میں‘پرتعیش اورپرآسائش زندگی کے خوگرانسانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش نے نفس کشی کے تمام راستے بند کردیئے۔ مادہ پرستی کا رقص سرعام دیکھاجاسکتا ہے ۔ چار عشرے قبل جنوبی ہند کی ریاست آندھراپردیش(جواب تلنگانہ اورآندھرا میں تقسیم ہوچکا) کے شہر حیدرآباد کے شہریوں کی زندگی میں اطمینان اورٹھہرائو دیکھا‘ جہاں غریب اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے تھے‘انکی زندگیوں میں حد درجہ سکون‘ اطمینان قلب اورقناعت کا عنصر غالب نظر آتا تھا۔ ممبئی کی طرح پرشور اور پر ہنگام زندگی جو کراچی سمیت پاکستان بھر میں بیشتر جگہوں پر پائی جاتی تھی وہاں عنقا تھی۔ آزادی کے محض اکتیس سالوں بعد دونوں ملکوں میں اتناواضح فرق دیکھ کر اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمارے مزاج اور رویوں میں اتنا جلدی تبدیلی کیونکر آگلئی۔ وہ کونسے عامل تھے جس نے ہمیں یکلخت بدلنے پر مجبور کردیا۔ کئی بار ارادہ کیا کہ اس کی تحقیق کی جانی چاہیے۔ میں اکثر اپنے حلقہ احباب میں بھی اسکا تذکرہ کیا کرتا تھا لیکن کسی نے اسکی وجوہات نہیں بتائی۔ پندرہ سال قبل جب میں شارجہ کے ایک اخبار میں ملازمت کررہا تھا تووہاں برصغیر کے مختلف افراد سے ملاقاتیں معمول کا حصہ بن گئیں‘ انہی میں آندھرا پردیش کی راجدھانی حیدرآباد دکن کے بھی بیشتر افراد سے بھی ملنے کا موقع فراہم ہوا۔ دفتر سے فارغ ہونے کے بعد روزانہ شام میں میری ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ میرے اندروہی سوال کلبلا رہا تھا مجھے کسی طرح ان سے ملاقاتوں کے ذریعہ یہ عقدہ حل کرنا تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حیدرآباد دکن والے اپنی تہذیب اوررکھ رکھائو اوراپنے رویوں میں مفکسرالمزاجی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ کسی بھی اجنبی سے ملاقات میں بھی انکے اخلاق بے مثل ہوتے تھے جس کا راقم بھی شاہد تھا۔ وہاں کے نوجوان لڑکوں سے تبادلہ خیال کے دوران مجھے احساس ہوا کہ یہ نئی پود ویسی نہیں جسکی مجھے توقع تھی۔میں نے سوچا شاید کسی مخصوص حالات کی وجہ سے انکے مزاج میں تکبر اوراکھڑ پن آگیا ہو۔ شارجہ اور دبئی میں حیدرآبادی شہریوں کی کافی تعداد موجود ہے۔میں دوسرے حیدرآبادی نوجوانوں سے ملتا رہا کہ شایدوہ کچھ مختلف ہوں۔ لیکن تلاش بسیار کے باوجود مجھے ایک بھی نوجوان حیدرآبادی ایسا نہیں ملا جو اپنی مشہور روایتوں کا امین ہو۔ کچھ ہی عرصہ بعد دو حیدرآبادی انجینئرز سے ملاقات ہوئی جو شارجہ میں میری ہی بلڈنگ کے کسی فلورپررہائش پذیر تھے۔ ایک صاحب کی لگ بھگ عمر ساٹھ سال کی لگتی تھی اور دوسرا تقریباً چالیس بیالیس سال کا لگتا تھا۔ اب تک متعدد نوجوانوں ہی سے ملاقاتیں تھیں جن کے رویوں سے مجھے شدید مایوسی ہوئی تھی۔ ان دو حضرات سے ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ صرف وہاں کے نوجوانوں میں ہی رویوں کی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ پرانے لوگ ویسے ہی ہیں جن کیلئے وہ مشہور تھے۔ ہفتہ پندرہ دن بعد ہم بے ت کلف ہوئے تو میں نے بڑی بے قراری سے آخر وہ سوال داغ دیا کہ حیدرآبادی تو اپنے اخلاق کی وجہ سے بہت مشہور تھے لیکن یہ وہاں کی نوجوان نسل کو کیا ہوگیا کہ وہ اسکے برعکس ہوگئے ہیں۔ میرے استفسار پر دونوں افراد جو شاید پہلے ہی سے بھرے بیٹھے تھے انہوں نے اپنی بھڑاس ایسے نکالی کہ میں دنگ رہ گیا۔ اب مجھے عشروں والا جواب مل چکا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ’’اب وہ حیدرآبادی نہیں رہے جو ستراسی کی دہائی میں ہوا کرتے تھے‘(وہ اپنے ٹھیٹ دکنی لہجہ میں گویا تھے) ۔ نفسا نفسی کا دور آگیا ہے‘ مادہ پرستی عروج پر ہے‘ خونی رشتوں میں تغاوت بڑھ گئی ہے‘ ہر کوئی پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ مجھے اسکی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔ اپنے دین سے دوری اورنفسانی خواہشات کی غلامی‘ آگے بڑھنا یا ترقی کرنا کوئی گناہ نہیں لیکن اس کیلئے تمام حدود پار کرلینا یعنی حقیقی مقصدحیات جو ہمیں ہمارا دین عطا کرتا ہے‘ اس کو بالاء طاق رکھ کے صرف دنیا داری کرنا ایسا عمل ہے جہاں سے اخلاقی اورمعاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسی کی کوکھ سے بدعنوانیوں کا سیل رواں جاری ہوتا ہے۔ نفس پرستی ہی سے تمام اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی سے معاشرے میں انتشار اوربے چینی پھیلتی ہے۔ معاشرے میں مسابقتی ماحول کو فروغ ایسا ہے جیسے کسی شہر میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ آج پاکستان میں بدعنوانی کے چر چے ہیں‘ سنجیدہ حلقے( یہ بھی اب سکڑتے جارہے ہیں) خصوصاً عمران خان اورمیڈیا کے بعض سنجیدہ دانشور پاکستان میں تمام اداروں کی تباہی کا رونا روتے ہیں تو اس کے پیچھے وہی فکر اورتشویش کا پایاجانا ہے جس کا ادراک کرکے یعنی صحیح تشخیص کرکے پھراسکا موثر علاج کیاجاسکے۔اس کے لئے عمران خان نے ریاست مدینہ کے ماڈل کو پاکستان میں اپنانے کی بات کی ۔ الیکشن سے قبل اوربطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد بھی قوم سے خطاب میں انہوں نے اس کا اعادہ بھی کیا تو ہمیں لگا کہ اب معاشرے کے سدھار کیلئے بڑے پیمانے پر کوئی عملی اقدامات دیکھنے کو ملیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی تباہ ہوچکا ہے۔ اب ہمارے گھروں سے اخلاقی تربیت ‘ دینی تعلیم اوروطن سے محبت کا درس سب ختم ہوگیا ہے۔ اسکی جگہ جھوٹ کی تربیت‘ ہرقیمت پر دولت کا حصول‘ خود غرضی‘ اقرباء پروری اور ذاتی مفادات کو ہرچیزپرمقدم رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آج ہم اسکے نتائج کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ معاشرے میں اپنے اصل اقدارکو دوبارہ رائج کرنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ عمران خان نے پنجاب میںسویڈش گورنینس کا ماڈل آزمانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یقیناً یہ کوئی اچھا ماڈل ہی ہوگا لیکن ریاست مدینہ کے ماڈل کا وعدہ کدھر گیا؟ اس کو ترک کرنے کی کیا وجہ ہے۔ کیا یوٹرن کی روایت برقرار رکھی جارہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ریاست مدینہ کا خواب قوم کو کیوں دکھایا گیا جبکہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہی اسی میں پنہاں ہے تمام معاشی اورمعاشرتی امراض کا شافی حل بھی اسی میں ہے۔