سیاست، عوام
پاکستان کی سیاست ہمیشہ اقتدار کے حصول کا ایک ذریعہ ہے کبھی جمہوریت اور کبھی ڈکٹیٹر شپ کے سائے میں سٹیٹس کو کی علمبردار قوتیں ہی صاحب اقتدار رہتی ہیں۔ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت عوامی حقوق کے دلفریب نعرے تو بلند کئے جاتے ہیں پرانی بوتل میں نئی شراب پیش کی جاتی ہے مگر کبھی کبھار مفاداتی قوتوں کے باہمی ٹکراؤ سے جب کوئی نیا گروہ یا پرانے لوگ بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو عوام ایک دفعہ پھر نئی حکمران قیادت سے امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ وہ راتوں رات انکے تمام مسائل حل کر کے تمام لوگوں کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا ہے کبھی مقتدر طبقے سامنے آکر اقتدار پر براہ راست قابض ہو جاتے ہیں تو کبھی پردے کے پیچھے سے پتلیوں کو نچایا جاتا ہے۔ لہٰذا جب تک سیاسی پتلیاں تماشا دکھاتی رہتی ہیں تو اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک اپنے ایجنڈے کیمطابق حکومت کرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی سیاسی حکمران عوام کی حاکمیت کا نمائندہ بن کر اپنے آپکو واقعی وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیتا ہے تواس دن حکومت عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ عمران خان تمام اداروں کو سادگی اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں مگر کیا وہ واقعی تمام ریاستی اداروں کو سادگی اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب سمجھ دار انسان ہیں وہ کبھی بھی بھٹو جونیجو اور نواز شریف کی طرح اپنے حقیقی دائرہ عمل سے باہر آنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکیں گے۔ سیاست کے کھیل کا گہرا تعلق اس اجتماعی سوچ و فکر، سماجی اور ادارہ جاتی کلچر کے ساتھ ہوتا ہے جس میں ارباب بست و کشاد مفاداتی جمہوریت کا ایسا رومانس پروان چڑھا دیتے ہیں جسکے ذریعے اقتدار کا ہما خود بخود انکے کندھوں پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اس مخصوص کھیل سے ناآشنا عوام جمہوریت اور عوام کی حاکمیت کے مغالطے میں طاقتور افراد کے قائم کردہ استحصالی نظام کے بھکاری بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اور کمزور جمہوری ملکوں میں نادیدہ ہاتھ بالادست طبقوں کے ذریعے سیاسی عمل کو اس انداز میں وضع کرتے ہیں کہ طاقت اور دولت کے اشتراک سے کمزور عوام کو اپنا تابع بنا لیتے ہیں۔ انہیں نان ایشوز کی ڈگڈگی پر لگا دیا جاتا ہے جیسے کہ بار بار سابق وزیراعظم نواز شریف کا تمسخر اڑانے کیلئے وہاں پر موجودہ چھ بھینسیں دکھائی جاتی ہیں۔
عوام کیلئے گورنر ہائوسز کے دروازے کھولنے سے اور ان میں سیر کرنے سے کیا ان کے حقیقی مسائل کا حل مل جائے گا لہٰذا موجودہ حکومت کوچاہئے کہ وہ پاکستانی عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کیلئے ا پنا پروگراوضع کرے ناکہ پوری قوم کوڈگڈگی پر نچائے۔ قرون وسطی کے سیاسی اور سماجی اداروں کے نظام پر نظرڈالیں تو معلوم ہو گا کہ حکمرانوں کیلئے الگ قوانین اور مقہور عوام کیلئے الگ۔ آج بھی پاکستان میں شامل سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان کے علاقوں میں جاگیردارانہ سوچ اور طاقت کے ز یر اثر سیاسی عمل جاری اورساری رہتا ہے۔ یہ وہ Electable ہیں جن کے آبائو اجداد انگریزوں کے کتے اور گھوڑے نہلاتے تھے اور آج نسل درنسل یہ لوگ ایوب خاں سے لے کر پرویز مشرف اور نواز شریف سے لے کر عمران خاں کے ساتھ شراکت اقتدار میں رہتے ہیں تو پھر کیسے عام انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ استحصالی طبقہ انکے حقوق اور جائز سہولتوں کیلئے نظام حکومت میں ایسی تبدیلیاں لائے گا جس سے عام انسان بھی اپنے آپ کو معاشرے کامعزز رکن سمجھے گا۔ ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ، غلام حیدر وائیں کی کاربن کاپی ہیں ان کا خیال ہے کہ شاید وہ موجودہ نظام کے طاقتور افراد کو نکیل ڈال لیں گے اورعام شخص CPO اور ڈپٹی کمشنر کے کمرے میں بغیر اجازت داخل ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ جب بغیر اطلاع دئیے راولپنڈی ضلع کچہری پہنچے تو کمشنر ڈپٹی کمشنرحتیٰ کہ کوئی مجسٹریٹ اور تحصیلدار بھی دفتر میں نہ تھا۔ وزیراعلیٰ خود افسروں کو فون کر کے دفتر بلا رہے تھے جنہوں نے بہانہ کیا کہ وہ ڈینگی کی مہم میں مصروف تھے۔ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آج تک راولپنڈی ڈسٹرکٹ میں ڈینگی مہم کے لئے معمولی درجہ چہارم کے اہلکار کام کر رہے ہوتے ہیں کبھی کبھار گریڈ 18 کا محکمہ تعلیم کا ڈپٹی ڈائریکٹر سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈینگی کے متعلق احتیاطی تدابیر چیک کرنے آ جاتا ہے اگر وزیراعلیٰ تگڑا ہوتاتو راولپنڈی کے تمام افسران کومعطل کرتا مگر کہتے ہیں …ع
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
آج اگر فیوڈلز اور صنعتی سیاسی کھلاڑیوں کے سامنے کارپوریٹ کلچر کے نمائندے عمران خاں نے اقتدار حاصل کیا تو وہ کارپوریٹ اداروں کی بنیاد پر ایسی ریفارمز لائے گا جس میں عوام کو ہی اسکی قیمت دینا پڑیگی۔ اگرمیٹرو بس میں غریبوں کے سفر کیلئے آٹھ ارب کی سالانہ سبسڈی دی جا رہی ہے تو یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ کو مختصر کیا جا سکتا تھا۔ طاقتور حلقوں کے غیر بجٹ اور مراعات کو کم کیا جانا چاہئے۔ کیا یہ آسمانی صحیفہ ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈججز کی پنشن اور سہولتیں کئی کئی لاکھ ہوں اور مراعات کروڑوں میں ہوں بلکہ ایک سابق صدر تو دو پنشنیں لے رہے ہیں ایک صدر کی دوسری ریٹائرڈ جج ہونے کی ابھی تک ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نہ جانے کس سوچ میں گم ہیں وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بھی اینگرو کمپنی ہے جسے وہ بلدیاتی نظم و ضبط سے منافع بخش بنا لیں گے۔ ابھی تک تمام ریاستی اداروں میں کرپٹ افراد موجود ہیں ان پر ابھی تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا ہے سوائے بیورہ کریسی کے پیچھے نیب ڈالنے کے اس ملک میں نہ تو کسی لینڈ مافیا اور نہ ہی سٹاک بروکر پر کسی نے ہاتھ ڈالا ہے اورنہ ہی ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔
اگر موجودہ حکومت نے Across the Board ڈائون سازی نہ کی ان کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی نہ لا سکی تو پھر عمران خان نے نئے پاکستان کا جو خواب دیکھا تھا۔ وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے گا۔ آج پاکستانی عوام پر 95 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ بجٹ کا خسارہ 2000 ارب تک پہنچ چکا ہے اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 ارب ڈالرز سے تجاوز کر رہا ہے۔ آبادی اور بیروزگاری کاسیلاب اس ملک کو بہانے کو ہے مگر طاقتور طبقے اپنے اپنے غیر ترقیاتی بجٹس پر کٹوتی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پھرایسے میں جب دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے طاقتور طبقے صاحب اقتدار ہوتے ہیں تو وہ کیسے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دیں گے۔
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم