ڈیمز اور چیف جسٹس آف پاکستان
غیب سے کسی مرد کامل کا انتظار تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دل میں پروردگار نے ڈیم کی جوت جگائی۔ پہلا موقع ہے کہ آرمی چیف جنرل باجوہ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ایک ارب روپے کا عطیہ مسلح افواج کی طر ف سے جمع کروایا اور جناب عمران خان نے بھی دیر نہیں کی ڈیم کیلئے اپیل کردی۔ اب پاکستان کے مقامی دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ ساری قوم اور قیادت بڑے جج صاحب کی پشت پر کھڑی ہے۔ بد باطن تاریکیوں کے پجاری واشنگٹن سے لندن اور پاکستان تک اپنی ہی دہکائی آگ میں لوٹ رہے ہیں ۔یہ کوئی بلائے ناگہانی نہیں کہ اچانک نازل ہو گئی ہو’ قحط سالی اور پانی کا مسئلہ گذشتہ نصف صدی سے ہمارے تعاقب میں ہے ۔ ہم اربوں روپے مالیت کا پانی ہر سال سمندر برد کر دیتے ہیں۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں بناتے۔ اس پر سب سے پہلے خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے آبی ماہرین نے توجہ دلائی تھی۔ سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کالاباغ ڈیم کے حق میں نعرہ مستانہ بلند کیا۔ ایک اور توانا اور معتبر آواز سابق صدر فاروق لغاری کی تھی وہ پانی پانی اور کالاباغ ڈیم کی مالا جپتے جپتے راہی عدم ہوگئے۔ رہے ہمارے سابق حکمران شریفین کو تو آخری لمحات تک بھی حرام ہے اس سنگین مسئلے کا احساس تک ہوا ہو۔ وہ پاناما کے داغ دھوتے دھوتے رخصت ہو گئے۔
پاکستان میں یہ سارے نام نہاد خیرخواہ’’ جعلی روشن خیال کوئی مفت میں پاکستان کو تاریکیوں میں ڈبونے اور قحط کے سپرد کرنے کا کام نہیں کر رہے۔ اس کیلئے 40 برس ہوتے ہیں بھارت نے 500 ملین روپے ریوالونگ قائم کر رکھا ہے جس میں خرچ کی گئی رقم خود بخود جمع ہوتی رہتی ہے۔ اس فنڈ کی رقم پاک روپے میں ایک ارب روپیہ بنتی ہے جونہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیا میر بھاشا ڈیم بنانے کیلئے اکاونٹ کھولنے اور مہم چلانے کا اعلان کیا تو حشرات الارض کی طرح ڈیم مخالف کیڑے مکوڑے باہر نکل آئے اور چیف جسٹس پر حملہ آور ہیں۔ چیف جج صاحب کا جرم یہ ہے کہ وہ ڈیم بناکر پاکستان کے تن مردہ کو روح تازہ دینے پر تْل گئے ہیں۔ انکے نزدیک یہ کوئی معمولی جرم نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شخصی بت پرستی کے کفر میں مبتلا بونوں کے جھرمٹ سے ایک بلند قامت کو صرف پاکستان کی روشن پیشانی ہی بھاتی ہو، وہ اسی پر فریفتہ ہو، اسکے سامنے آئین اور قانون کا بانکپن ہی سب سے اعلیٰ اور خیرہ کن ہو۔ آخر کیونکر انہیں برداشت ہوگا جن کی گھٹی میں وہ ’شیر‘ گھلا ہے جس کی چاشنی سرحد پار کے زہریلے دشمن سے آتی ہے۔ آخر کیوں؟جسٹس ثاقب نثار اسی معاشرے میں پل بڑھ کر جواں ہوئے۔ قانون کے شعبے نے انہیں اندر کی کہانی سمجھا دی۔ معاشرے کے جلتے بلتے صحرا سے گزرتے ہوئے آبلہ پائی کرتے ہوئے انہوں نے تلخ موسموں کا ہر مزہ بھی چکھا ہوگا۔ انکے عدالت کے اعلی مناصب پر فائز ہونے کے بعد سے کئے جانیوالے فیصلے وقت کے کٹہرے میں گواہی دے رہے ہیں، صاف پکار رہے ہیں کہ اس مرد قلندر کی روح میں پاکستان بسا ہوا ہے۔ اسکی فطرت اس کرب کو برداشت کرنے کیلئے آمادہ نہیں جس نے اس قوم کے رگ وریشے کو لہولہان کرکے استحصال کے ایسے زخم لگائے ہیں جن کیلئے مرہم درکار ہے۔ چیف جسٹس نے ڈیم مخالفین پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمات چلانے کا کہا ہے جو کہ بروقت اقدام ہوگا کیونکہ یہ سوفیصد حقیقت ہے کہ یہ لو گ بھارتی اشارے اور ‘مال پانی’ پر کالاباغ ڈیم بنانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اب دیا میر بھاشا ڈیم کی مخالفت اور مذاق اڑانے میں بھی پیش پیش ہیں ۔ان بد زبان اور بدبخت عناصر پر غداری کے مقدمات چلانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس میں کسی قسم کی رو رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔
بھارت ایڑیاں رگڑ رہا ہے کہ کسی طرح چین پاکستان راہداری (سی پیک) کے عظیم معاشی منصوبے کو تہہ وبالا کردے۔ دوسری جانب زہریلے ناگ کی طرح پھن پھیلائے اسکی نگاہیں پاکستان کی آبی گزرگاہوں پر گڑی ہیں۔ پاکستان کی طرف بہتی پانی کی ایک ایک بوند اسکے بس میں ہو تو زہر آلود کردے، بند باندھ دے یا پھر راستہ ہی پاٹ دے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
ایک عرصہ سے یہ خاکسار شور مچا رہا ہے، قلمی احتجاج اورمراسلاتی خبرداری کی اپنے تئیں کوششوں میں رہا کہ بھارت کے اندر اس سرمایہ کی طرف توجہ مبذول کرائے جو عیار بنئے نے صرف اس مقصد کیلئے رکھ چھوڑا ہے کہ پاکستان میں ڈیمز کیخلاف آواز واحتجاج کا راگ ہلکے اور اونچے سْروں میں جاری رہے۔ بھارتی را اور حکومت کا پختہ مشن ہے کہ کسی بھی قیمت پر پاکستان میں ہر اس فرد کی عزت تارتار کردی جائے جو پاکستان کے پانی کے حق کیلئے آواز بلند کرے۔ کالا باغ ڈیم پر جناب چیف جسٹس کی کہی بات کو سیاق وسباق میں دیکھے، جانچے اور سمجھے بغیر جو ہاؤ ہو دکھائی دی اس پر قلندر لاہوری نے 1556 میں شیراز میں پیدا ہونیوالے محمد جمال الدین المعروف عرفی شیرازی کے سخن سے استفادہ کرکے رہنمائی فرمائی تھی۔ …؎
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
آوازسگاں کم نہ کند رزق گدارا
(فرمایا: عرفی تو رقیبوں کے شور وغْل سے نہ گھبرا۔ آواز سگاں سے کبھی گدا کا رزق کم ہوا ہے؟)
پھر فرماتے ہیں…؎
نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
(یعنی اگر ذوق نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنے گیت کوتیز کردے۔ اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حْدی خواں اپنی لے اور تیز کردیتے ہیں۔)
یہ دراصل اس مشاہدے کا بیان ہے جو عرفی نے عرب معاشرے میں کیاتھا۔ اونٹ پر جب وزن زیادہ ہوتا تو صحرا میں سفر کے دوران شتر بان گیت گاتے، جس سے ان کا سفر بھی اچھا کٹ جاتا اور اونٹ بھی اس لے کی مستی میں منزل تک پہنچ جاتا۔ (جاری)