سیاست موج ہے دریا میں اور…!
کیا فواد چودھری اور چوہان ، وفاق اور صوبہ پنجاب میں درست انتخاب ہیں؟بلاشبہ PTI کے devoted کارکن ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ دونوں کا مزاج اور مزاج میں گرمجوشی اور جذباتی انداز اُن دنوں کا ہے جب خود اپوزیشن میں تھے اگراس جذباتی انداز سے نجات حاصل نہیں کی تو دونوں اُبھرتے ہوئے سیاستدانوں کی سیاست کا نقصان ہو گا۔ میڈیا میں کچھ گڑ بڑ ہے تو یہ تحفہ PTI کا دیا ہوا ہے۔
ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں چوہان صاحب غصے میں آگئے مخالف سیاستدانوں کو ناشائستہ الفاظ سے مخاطب کرنا غلط اور ناقابلِ معافی ہے۔ معذرت کس بات کی یہ تبدیلی ہے؟ تو Negative ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری اچھے نامورسیاستدان ہیں۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو یہ کام چلے گا نہیں۔ میڈیا میں اتحاد اور یکجہتی ہے جو آزادی انہوں نے بڑی جدوجہد اور مسلسل جنگ کے بعد حاصل کی ہے، اسے چھین لینا محض خواب کی باتیں ہیں۔اسی روزایک معروف اینکرپرسن میدان میں آ گئے، اپنے پروگرام میں انہوں نے علیم خان کی خوب خبر لی۔ پنجاب کے سینئر وزیر نے چوہان صاحب کے روئیے کی مذمت کی۔ بات وہی ہے کہ اپنے مقصد object اور نصب العین کی جدوجہد میں عمران خان اکیلے ہیں۔ وہ اب کریں تو کیا کریں۔ بغیر تربیت ا ور عجلت میں حکومت مل گئی ہے۔ جس کا چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کراچی کے ایک سیاستدان عامر لیاقت نے بھی صدائے احتجاج بلند کر دی۔وزارت کیلئے عجلت اور بے صبری نامناسب ہے۔ درست بات یہ ہے کہ عمران خان نے کراچی کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔ صدارت دی، گورنر بنایا، کراچی کے نمائندوں کو وزارتیں دیں۔ صرف ایک فرد کا نام تو کراچی نہیں ہے۔ ہمارے اس دوست کی طبیعت میں ٹھہرائو نہیں۔ جلدی بگڑ جاتے ہیں ، مگر یہ بات بھی ہے کہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ وزارت کا آسرا ملا تو خاموش ہو گئے۔ایم کیوایم کے زمانے میں وزارت سے مستعفی ہو گئے، مگر درست مؤقف اپنایا تھا۔ بات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے تھی۔ کراچی سے وزارت کی مستحق خوش بخت شجاعت رہ گئی ہیں۔ ان کو وزارت ملے گی بھی تو ایم کیو ایم کے کوٹے سے نہیں‘اس لئے انتظار کرنا پڑیگا۔ انتظار فرمائیے!
فنکشنل مسلم لیگ کی صفوں میں انتشار ہے۔مہتاب راشدی بھی خفا ہیں۔ کوئی کب تک صرف قربانیاں دیتا رہے گا۔وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا اپنی زبردست دلیرانہ جدوجہد سے Elect ہوئی ہیں۔ پیر صاحب محترم کی وجہ سے نہیں۔مہتاب راشدی کی منزل کیا ہے۔پتہ نہیں۔ کیا PTI؟ تو ہماری رائے اسکے حق میں نہیں ہے۔ PP کتنی ہی بُری سہی‘ اندرون سندھ اسکی جڑیں مضبوط ہیں۔قوم پرستوں کی سیاست کریں گی تو باقی اصحاب نے کیا حاصل کیا جو مہتاب حاصل کر لیں گی۔ البتہ ہماری دعائیں ہمیشہ انکے ساتھ ہیں۔سیاست حقیقت کا نام ہے، خوابوں کا نہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بھی میڈیا ا ور تجزیہ نگاروں کی تنقید کی زد میں ہے ۔(ر) جنرل اعظم اعوان گزشتہ ایک برس سے چینلز پر فوج کے Point of view کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ عمران صاحب کی حمایت بھی کی ہے مگر اس بار بیرونی دورے اور اقوامِ متحدہ نہ جانے پر جنرل صاحب خاموش نہ رہ سکے۔ اُنہوں نے دلچسپ الفاظ میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان ’’دائرہ اسلام آباد‘‘ ہو گئے ہیں۔ یعنی محدود ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم کے سعودی عرب کے دورے سے انکے اعتراضات کم ہوگئے ہونگے۔ امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی کہ صورتِحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس دوران امریکہ نے پاکستان کی 300 ملین ڈالر کی امداد منسوخ کر دی ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان امریکہ سے داغِ مفارقت نہیں چاہتا مگر خود امریکہ یوں ہی بے نیازی اور بے گانگی کا مظاہرہ کریگا تو ہم کیا کرینگے؟ افغانستان میں ڈومور کیلئے ہم کیا کرنے کوتیار ہیں؟ کیا ایسی صورتحال میں امریکہ، بھارت کا محاذ ہمارے خلاف کھولنے کو ترجیح دے سکتا ہے؟ آنیوالے دنوں میں یہ اور بہت سارے سوالات ہمارے سامنے آئینگے۔ فرانس کے صدر کے فون آنے اور وزیراعظم کی جانب سے انکار کے بارے میں بھی سوال ہے کہ فون آیا بھی تھا کہ نہیں کیونکہ عالمی اہمیت کی سرکاری شخصیات کے فون کرنے کا یہ انداز نہیں ہے۔ یہ معاملہ پہلے وزارتِ خارجہ لیول پر طے کیا جاتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو کے حوالے سے پہلے ہی معاملہ کشمکش پیدا کر چکا ہے۔ پیپلزپارٹی بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے ۔ بے نظیر کے بغیر اتنی آفتوں نے آصف علی زرداری کو پریشان کر دیا ہے۔ میڈیا کے روبرو وہ خود کو Collectرکھنے کی ، قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کبھی پھٹ پڑینگے۔ انہوں نے نواز شریف سے اچھا نہیں کیا اور اعتزاز کا بھی رویہ نامناسب تھا نتیجہ سامنے آگیا ہے۔ نواز شریف مردانگی اور حوصلے سے جیل میںدن رات گزار رہے تھے ۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں معطل کردی ہیں۔ یہ ان کیلئے بہت بڑا ریلیف ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
سندھ میں مسلم لیگ ن کی تنظیم کو برطرف کرنا ضروری ہے ۔ شہباز شریف نے بے عزتی کروائی ہروا دیا۔ ایک سیٹ نہ لے سکے ۔قومی اسبملی کی۔ کوئی گھر چھوڑ کر ملیر سے لڑ رہا تھا۔ ووٹ کتنے لئے ؟ پیسوں کی خوردبرد کے الزام لگے ۔مگر مسلم لیگ میں احتساب کا کوئی نظام ہی نہیں ہے الیکشن میں سندھ میں شکست ہوئی ہے ۔جن کی ضمانتیں ضبط ہوئیں وہ بھی دھاندلی کے پردے میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں سندھ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو ناگزیر ہے ۔
وسعت اور کامرانی کی گنجائش بہت ہے مگر کرے کون ؟ شاہ محمد شاہ نے بڑے تیر مارے جو شہبا ز شریف اسلام آباد میں مہمان نوازی کر رہے ہیں تب تو اچھے اور وضع دار لوگ بھاگتے ہیں اور پارٹی سے دور ہو جاتے ہیں ہر بات مشاہد اللہ کے علم میں ہے مگر وہ ہی تھکے تھکے نظر آتے ہیں۔