پانی اوپر جھونپڑے، مورکھ پیاس مریں
وطن عزیز میں پانی کے کمی نہیں۔ دریائے چناب میں پانی کے بہائو کی پیمائش مرالہ کے مقام پر دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر اور دریائے سندھ اور دریائے کابل میں پانی کے بہائو کی پیمائش اٹک کے مقام پر ہوتی ہے۔ ان مقامات سے نیچے بہائو میں سالانہ اوسطاً MAF 145 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
پیمائش کے مقام سے اوپر بہائو میں تمام دریائوں میں گلیشیئر اور برف کے پگھلائو کا پانی رواں رہتا ہے ، بارش کا پانی کم ہوتا ہے۔ البتہ دریائے توی جو دریائے چناب کا معاون دریا ہے۔ اس میں مقبوضہ کشمیر میں جموں کی وادی میں سے گزرتے ہوئے مون سون کی بارشوں کا پانی کثرت سے شامل ہوتا ہے۔ پاکستان کے دریائوں میں کبھی زیادہ پانی آتا ہے تو سیلاب آتے ہیں۔ مثلاً 1973/74ء میں MAF 166.88 ملین ایکڑ فٹ رواں رہا تو بڑا سیلاب آیا، جبکہ خشک سالی کی صورت میں مثلاً 1974-75ء میں MAF 94.69 پانی رواں ر ہا تو پانی کی شدید قلت ہوئی۔
پاکستان میں بارش کا پانی اوسط سالانہ MAF 180 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ یہ بارشیں زیادہ تر مون سون کے موسم میں منگلا سے نیچے بہائو میں اور اٹک سے نیچے بہائو میں ہوتی ہیں۔ دریائوں کے پانی کی پیمائش کے مقام سے اوپر کے بہائو میں بارشیں کم ہوتی ہیں۔ بارشوں کا پانی کھیتوں میں بھی پڑتا ہے اور دریائوں میں بھی آتا ہے۔ ایوب خان کے دور میں کئے گئے عالمی بینک کی سروے رپورٹ کیمطابق کوہ ہندوکش اور اسکی وادیوں کا ایک لاکھ دس ہزار پانچ سو مربع میل کا بارانی پانی اور وادی سواں اور راولپنڈی کا 45000 مربع میل کا بارانی پانی اٹک سے لیکر کالا باغ ڈیم کی سائیٹ تک دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بارانی پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اس پانی کو زراعت ا ور دیگر انسانی و چرند و پرند کے استعمال میں لانے کیلئے کالا باغ ڈیم تیار منصوبہ ہے۔
موجودہ حکومت اپنے دور کے پہلے برس میں تعمیر کا آغاز کرے تو آخری برس تک کالا باغ ڈیم تعمیر ہو کر مکمل ہو سکتا ہے جس سے ملک میں پانی کا بحران ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیگا۔ ہر سال پندرہ ارب ڈالر پانی کی مد میں اور پانچ ارب ڈالر پن بجلی کی مد میں قومی خزانہ میں آ سکتا ہے۔ پھر بیشک بھاشا ڈیم بنائیں، داسو ڈیم بنائیں اور بونجی پن بجلی گھر بنائیں۔ ان تمام منصوبوں کیلئے ہر سال کالا باغ ڈیم کی آمدن سے رقم مہیا ہو گی۔ مہمند ڈیم MAF 1.2 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ ہے جو مقامی طور پر زراعت کیلئے استعمال ہو گا۔ پن بجلی کی پیداوار 800MW میگا واٹ ہو گی اور آغاز تعمیر سے، سات برس بعد مکمل ہو گا۔ واپڈا کے مطابق بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز دسمبر 2019ء میں ہو گا۔ سال بھر کاغذی کارروائی۔ ڈیزائن کے کاغذات اورسٹڈیز ڈاکومنٹ تیار کرنے میں لگے گا۔ اسکے بعد پندرہ برس بعد مکمل ہو گا یعنی 2035ء تک متوقع تکمیل ہے۔ ان پندرہ / سولہ برسوں کیلئے قوم پانی کی قلت برداشت کریگی۔ تب تک حکمران غیروں سے قرضے لیکر ملک کو چلائیں گے؟ یوں وطن عزیز اغیار کی معاشی غلامی میں جکڑا رہے گا۔ قدرت کا انعام کالا باغ ڈیم کی صورت میں موجود ہے جس کی تعمیر میں پس و پیش کر کے اللہ کے انعامات اور ڈیم کے فوائد سے ملک و ملت کو محروم رکھنا عظیم قومی جرم ہے۔ امسال پانی کا قحط ہے۔ واپڈا اور ارسا کی رپورٹ کیمطابق 5 اگست 2018ء تک منگلا ڈیم میں فعال پانی 1.867 MAF ملین ایکڑ فٹ اور تربیلا ڈیم میں 4.36 MAF اور چشمہ بیراج میں0.051 MAF ملین ایکڑ فٹ مجموعی طور پر 6.279 MAF ملین ایکڑ فٹ تھا۔ مون سون کی مزید زور دار بارشیں نہیں ہوئیں تو ربیع یعنی گندم وغیرہ 2018/19ء کی فصل اور خریف 2019ء یعنی کپاس وغیرہ کی فصل کی بوائی اورابتدائی آبیاری کیلئے پانی کی شدید کمی کا خدشہ ہے۔ یہ صورتحال کاشتکار کیلئے انتہائی پریشانی کا باعث اور ملکی معیشت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ ان تمام حالات کا تقاضہ ہے کہ کالا باغ ڈیم بلاتاخیر تعمیر کیا جائے۔
کاسمو پولیٹن شہر کراچی کیلئے دریائے سندھ اور حب ڈیم سے پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ حب ڈیم میں ریت مٹی بھر جانے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان میں قلات ڈویژن کی شہری آبادی کے پینے اور دیگر استعمال کیلئے پانی کے منصوبہ کی تکمیل کے بعد سے حب ڈیم سے بلوچستان کی طرف سے پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کراچی کیلئے پانی کی فراہمی میں کمی آ گئی ہے۔ دریائے سندھ کے پانی سے کراچی کیلئے کوٹہ مقرر ہے مگر واٹر اپورشمنٹ اکارڈ 1991ء کی شہری آبادی اور صنعت کے استعمال کیلئے نئے ڈیم بننے کی صورت میں اضافی پانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ ڈیموں میں پانی زراعت کیلئے ہے اس لئے کراچی کے حصے میں کچھ نہیں آئیگا۔ جب تک بھاشا ڈیم بن پاتا ہے۔ تب تک موجودہ ڈیموں میں ریت/ مٹی بھر جانے سے 6.00 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو گی۔ لہٰذا ڈیموں میں زراعت کیلئے پانی کی کمی کی صورتحال برقرار رہے گی، یوں پندرہ برس بعد بھی دریائے سندھ سے کراچی کو اضافی پانی نہیں مل سکتا۔ ڈی سیلینشن پلانٹ کے ذریعے سمندر کے پانی کو کشید کر کے چھوٹی آبادی کے پانی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں مگر کراچی بہت بڑی آبادی ہے۔ اسکی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں۔ سیاستدان عوام کو غلط آس میں ڈالے ہوئے ہیں۔