جمعرات ‘ 9؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 20؍ ستمبر 2018ء
بھینس بیچنے کی بجائے دودھ سے زیادہ پیسے کما سکتے ہیں: وزیراعلیٰ سندھ
اب جس وقت حکومت پے درپے کفایت شعاری کے درجنوں پروگراموں پر عمل پیرا ہے۔ اس حوالے سے اسے مشورہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں جب عمران خان نے ٹھہرنا ہی نہیں تو وہاں موجود ان قیمتی بھینسوں نے وہاں ٹھہر کر کیاکرنا ہے۔ ان سے افزائش نسل کا کام تو نہیں لیا جا رہا اگر ایسا ہوتا توآج وزیراعظم ہائوس میں ایک قیمتی اعلیٰ نسل کی بھینسوں کا باڑہ قائم ہو چکا ہوتا اور ان کی فروخت سے ملک کو بھاری منافع بھی ہوتا کیونکہ ہمارے امرا اعلیٰ نسل کی بھینسوں اورگائیوں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کا دودھ اشرافیہ کی پسندیدہ غذا ہے۔ ویسے گاندھی جی نے بھی تو اپنے آشرم میں بکری پالی ہوئی تھی۔ جس کو مقوی اور اعلیٰ غذا دی جاتی تھی تاکہ اس سے اعلیٰ طاقتور دودھ حاصل ہو۔ خود گاندھی جی بے چارے ساگ پات پرگزارہ کرتے تھے یعنی جو کھانا گاندھی جی نے کھانا ہوتا تھا وہ بکری کھاتی تھی اور جو غذا بکری نے کھانی ہوتی وہ گاندھی جی کھاتے۔غذائی الٹ پھیر کیوجہ سے گاندھی جی سوکھ کر کانٹا ہوگئے اور ان کی پیروکار انہیں مہاتما کہنے لگے۔ اب مراد علی شاہ کا مشورہ تودرست ہے کیونکہ ان 8 بھینسوں کے دودھ کی کمائی سے تو وزیراعظم ہائوس کا خرچہ بآسانی نکل سکے گا۔ ویسے بھی سونے کی انڈہ دینے والی مرغی ذبح کرنے سے بہتر ہے روز ان کا انڈہ حاصل کیا جائے۔
٭…٭…٭…٭
ڈیم فنڈ، شیخ رشید کی ہدایت پر ریلوے کے ٹکٹوں میں ایک تا دس روپے اضافہ
ریلوے کے وزیر شیخ رشید کو وزیراعظم عمران خان سے بہت محبت ہے، مگر اس محبت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کی قیمت بھی عوام سے وصول کریں۔ انہوں نے بے شک ڈیمز کی تعمیر کی خاطر ریل کے مختلف درجوں کے کرائے میں ایک روپے سے لے کر 10روپے تک کا اضافہ کیا ہے مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر چیز کیلئے قربانی عوام دیں۔ بظاہر یہ رقم دیکھنے میں کچھ نہیں لیکن ا س سے بہتر کیا یہ نہ ہوتا کہ شیخ صاحب اپنے پلو سے چند کروڑ روپے نکال کر جی کڑا کرکے چیف جسٹس فنڈ میں دے دیتے۔ اس وقت جس وزیر مشیر کو دیکھو یہی اپیل کر رہا ہے کہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے دل کھول کر امداد دیں۔ مگر خود یہ اربوں پتی لوگ اپنی جیب سے خاطر خواہ رقم کیوں نہیں نکالتے۔ یہ بڑے بڑے لوگ اگر ایک ایک ارب ہی دے دیں تو کئی سو ارب جمع ہو سکتے ہیں اور چندہ لینا بھی نہ پڑے، مگر یہ حوصلہ ان میں کہاں۔ شیخ رشید تو چلیں شیخ ہیں۔یہ باقی نواب، خان، سردار، میر اور چودھریوں کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ اگر یہ سب بڑے لوگ ایثار کریں گے تو عوام بھی حسب توفیق ڈیمز کی تعمیر میں حصہ ڈالیں گے جو حبِ وطن میں آج بھی بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں۔ ذرا اب مراعات یافتہ طبقہ بھی تو جیب سے ہاتھ نکالے سب سے زیادہ بجلی اور پانی بھی یہی لوگ ضائع کرتے ہیں ان کو حصہ بھی زیادہ ڈالنا چاہئے۔ یہ ڈیمز صرف غریب عوام کیلئے ایک بلب اور ایک پنکھے کیلئے ہی نہیں بن رہے یہ درجنوں بلبوں سے روشن اور دن رات چلنے والے اے سی سے ٹھنڈے ٹھار رہنے والے محلات نما بنگلوں کے لئے بھی بن رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
زلفی بخاری وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز مقرر
آج تک تو اقتدار میں آنے والے ہمیشہ اپنے رشتہ داروں کو نوازتے رہے ہیں۔ مگر اب شاید یہ رسم بدل گئی ہے اب صاحبان اقتدار رشتہ داروں کی بجائے دوستوںکو ترجیح دینے لگے ہیں ۔ موجود حکومت نے یہ سلسلہ کچھ اس انداز میں پروان چڑھایا ہے کہ دوست تو دوست دشمن بھی داد دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری اپنی دوست نوازی میں مشہور ہیں جو ان کی بدولت اربوں میں کھیلنے لگے اور آج کل اس کا صلہ بھگت رہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے دوست کم بنائے مگر انہیں خوب نوازا۔ ان میں سے اکثر آج کل یا تو باہر چھپے بیٹھے یا عدالتوں میں ہیں۔ اب ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب کے دوستوں کی بھی قسمت کھل گئی ہے۔ سچ کہتے ہیںپارس لوہے کو بھی چھو جائے تو سونا بنا دیتا ہے مگر خان صاحب کے اکثر دوست خود سونے کی کان ہیں۔ اب زلفی بخاری صاحب بھی جو پہلے دوست خاص تھے اب وزیراعظم کے مشیر بن گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح احسان مانی چیئرمین پی سی بی اور ذاکر خان ڈائریکٹر پی سی بی بن گئے۔ یہ فہرست مکمل نہیں ہوتی جب تک نعیم الحق اور افتخار درانی کا ذکر خیر بھی شامل نہ ہو جو مشیر بن گئے۔ عون چودھری وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر بن گئے۔ اب رہ گئے ایک دوست مسرت انیل جو آج کل کابینہ کے اجلاسوں میں بھی پائے جاتے ہیں انکے بارے میں بھی خبر گرم ہے مگر انہوں نے کوئی عہدہ لینے سے انکار کر دیا ہے کہ عہدے کے بغیر ہی 50لاکھ مکانوں کی تعمیر میں مشاورت کریں گے۔ اس حساب سے تو اصل دوست یہی ہے جو بے لوث کام کر رہا ہے۔ اب معلوم نہیں یہ بے لوث دوستی ہمیں راس بھی آتی ہے یا نہیں کیونکہ پاکستانی قوم پہلے ہی بہت سے ڈبل شاہ ٹرپل شاہ جیسوں کی بے لوث دوستی سے ڈسی ہوئی ہے…۔
٭…٭…٭…٭
اثاثوں کی تفصیل مانگنا بے نظیر کی قبر کا ٹرائل ہے : زرداری
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ، کیا یہ سارے اثاثے شہید بی بی ساتھ لے گئی ہیں یا انکے بنائے ہیں۔ معاف کریں شہید بی بی ایسے اثاثوں سے بری الزمہ ہیں ۔ اپنے مال و جائیداد کا بوجھ ان پر ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ دنیا جانتی ہے جب کسی کے اثاثوں کی تفصیل طلب کی جائے وہ خود کو صوفی سنت سادھو اور فقیر کہنا شروع کر دیتا ہے یوں ظاہر کرتا ہے کہ وہ ارب پتی نہیں صرف اپنی پتنی کا پتی ہے یا چائے کی پتی ہے ۔ جبکہ یہ حضرات اگر دامن بھی نچوڑیں تو دینار و درہم کی ایسی بارش ہوکہ پورا ملک مال و زر سے بھر جائے ۔ کوئی غریب باقی نہ بچے۔ اب ایک بار پھر منہ زور مخالف ہوائوں نے کاخ ء زرداری کا رخ کیا ہے تو وہاں ’’ غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر ‘‘ والی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ اب سندھ کا رڈ کو چھوڑ کر سابق حاکمان وقت نے شہید بے نظیر کی قبر کو ڈھال بنا لیا ہے اثاثے آصف زرداری کے ہیں تو ان کی تفصیلات طلب کر نا شہید بے نظیر کا ٹرائل کیسے ہوگیا۔ عدالت نے زرداری صاحب سے صرف انکے ملکی و غیر ملکی اثاثوں اور منی لانڈرنگ اور منی ٹریل طلب کی ہے اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو ڈرکیسا۔ جو کچھ ایان علی ، مجیدانور، زمان جونیجو ، ڈاکٹر عاصم کا ہے وہ خود بھگتیں گے اثاثوں کے معاملات زندوں نے طے کرنے ہوتے ہیں مرنے والوں کو بیچ میں لانا درست نہیں ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے ۔زندوں کو البتہ یہاں عدالت میں اپنی اپنی صفائی دینی ہے۔